تعارف

تعارف:

اس پر فتن ، نفس پرست اور سائنس سےمرعوب زمانے میں جہاں ہر طرف باطل اورضلالت  وگمراہی کا دور دورہ ہے،عقائد ہوں یاعبادات ،معاملات ہوں یا معاشرت،اخلاقیات ہوں یا سیاست باطل جس برق رفتاری سے  ساری دنیا میں  پھیل رہا ہے اور لوگوں کو جس تیزی کے ساتھ قرآن و سنت  اوراہل سنت سے دورکرنے میں سرگرم ہے ، اورجن جدیدذرائع ِابلاغ کا استعمال کرتے ہوئے دین اور اسلام کے نام پرلوگوں کو گمراہ کرنےکی کوششوں میں مصروف ہے اور قرآن و حدیث کے نام پر اپنی ویب سائٹس اور اپنا منشازخرف القول کی شکل میں  سامنے رکھ کرعوام کو ارتداد یا ضلالت کے گڑھے میں ڈھکیل رہا رہے وہ اہل علم  اور اہل عقل سے مخفی نہیں ہے،اس  تناظر میں علمِ دین  ،قرآنی تعلیمات اورنبوی طریقوں کی صحیح نشرو اشاعت  ان جدید ذرائع ابلاغ کے ذرریعہ اسی عرق ریزی کے ساتھ  علماء امت کا ایک اہم فریضہ ہے تاکہ امت کو اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوْسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوْا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوْا وَأَضَلُّوْا ‘‘(صحیح بخاری:کتاب العلم،۱۰۰) کا مصداق بننے سے بچایاجائے۔

(قرب قیامت علم کم ہوتا جائے گا اور اللہ پاک عالموں کو اٹھاکر امت سے علم کی عظیم نعمت کو چھین لیں گے اور لوگ جاہلوں کو اپنا سردار بنالین گے اور  وہ جاہل بغیر علم کے فتویٰ دے کر خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے)

ان نازک حالات میں جہاں معاشرہ کی انٹرنیٹ اور آن لائن سے وابستگی ،دین سے دوری اور قرآن و سنت سے لا ابالی پن کی فضا عام ہے ،اور لوگ دین بھی انٹر نیٹ سے ہی حاصل کرنے لگے ہیں اور ہر رطب و یابس اور اہلِ باطل کے مسائل ونظریات  کو صحیح سمجھ کر اپنا لگے ہیں ، ایسے وقت ان تک دین کی تعلیمات پہنچانے اور قرآن و سنت سے قریب کرنے اور  اہلِ ملازمت جن کو اپنی ملازمت کی وجہ سے سے  فارغ  اوقات میں علم ِدین سیکھنے کے مواقع میسر نہ ہوں اور علم دین سیکھنے کا ذوق،شوق ، جستجو ، طلب اور اس کی شدید ضرورت کا احساس رکھنے کے باجود اپنی مصروفیت ،وقت کی قلت،یا مدارس اور اساتذہ کی کمی یا اسباب نہ ہونے کی بنیاد پر اپنی علمی پیاس نہ  بجھاپاتے ہوں تو ان کےلئےضروریات ِ دین اور علم دین  سیکھنے کاایک  بڑا ذریعہ آن لائن تعلم و تعلیم کا نظم   ہے۔

اس پس منظر میں علماء امت نے وقت کے تقاضوں اور حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئےشرعی تمام حدود کی رعایت کے ساتھ’’ ما لا یدرک کلہ لا یترک کلہ‘‘کے قاعدہ کے تحت آن لائن تعلیمی نظام کا قیام مناسب سمجھا۔

 اسی سلسلہ کی ایک کڑی شاہ مسیح اللہ اکیڈمی کا قیام بھی ہے،جس کی بنیاد والد گرامی حضرت اقدس  مفتی شاہ محمد نوال الرحمن صاحب دامت برکاتہم نے رکھی،جس  کے مقاصد درجِ ذیل ہیں۔

 

 

(۱)قرآن و حدیث کی صحیح تعلیمات  بشکل تحریر،تقریر اورتدریس امت تک پہنچائی جائیں۔

 (۲)ناظرہ،دور،حفِظِ قرآن کریم،تجوید و تصحیح ،مختصر مدتی عالم کورس،یک سالہ  امامت کورس،تفسیر وحدیث ،اردو اور عربی زبانی سیکھنے کے لئے حسبِ سہولت جید اور ماہراساتذہ(معلم و معلمۃ) کا انتظام کیاجائے۔ بالخصوص وہ مقامات جہاں دینی اداروں  یا معلم حضرات کی کمی ہو یاامت کا مصروف یا مجبور  طبقہ حصولِ تعلیم سے قاصر ہو ان کے لئےآن لائن انتظام کیاجائے۔

(۳) شعبۂ  تخصصات قائم کرکےنو فارغ طلبہ کی صلاحیتوں کو پروان چڑھایاجائے۔

(۴)دروسِ قرآن اور دروس حدیث کا انتظام کیا جائے۔

(۵)دور ِحاضرکے قدیم و جدید مسائل میں بشکلِ سوال وجواب قرآن و سنت کی روشنی میں امت کی  رہنمائی کی جائے۔

(۶)جدید پیش آمدہ مسائل میں محقق علماء اورمستند دینی اداروں سے فتاویٰ حاصل کرکے امت کو باخبر کیاجائے۔

(۷)حالات کے اعتبار سے دینی، دعوتی  اوراصلاحی مضامین اور کتب کی  نشر واشاعت کی جائے۔

(۸)اسلام ،مسلمان اور اہل حق کے خلاف پھیلائی جانے والی  غلط فہمیوں کو دور کرکے باطل کا دندانِ شکن جواب دیا جائے۔

(۹)نئی نسل کو مذہب سے قریب کیاجائے، اور دینی اقدار اور اسلامی آداب وثقافت سے روشناس کروایاجائے۔اور انہیں ملحدانہ افکار وباطل نظریات سے بچانے کے لیے علمی وتصنیفی کام کیاجائے۔

(۱۰)نئے باصلاحیت علماء اور مفتیان کرام کومربوط کرکے ان کے لئے علمی ،تحقیقی  اورتدریسی ماحول  سازگار کیاجائے

(۱۱)حضرت اقدس دامت برکاتہم کے درسی،تفسیری،اصلاحی،دعوتی بیانات ومجالس اور افادات سے استفادہ کیاجائے۔

اکیڈمی میں داخلہ کے لئے یہاں کلک کریں