Shah Maseehullah Academy

عشرہ ٔذی الحجہ کے آداب واحکام

عشرہ ٔذی الحجہ کے آداب واحکام

ترتیب : مفتی محمد عطاء الرحمن ساجد قاسمی مدیر شریعہ بورڈ آف انڈیا وشاہ مسیح اللہ اکیڈمی ۔
۲۹ ذیقعدہ ۱۴۳۸ھ

اسلامی مہینوں میں ایک اہم مہینہ ماہِ ذی الحجہ ہے،بالخصوص اس کے ابتدائی دس دن انتہائی اہمیت اور عظمت کے حامل ہیں، قرآن مجید کی سورۂ فجرمیں باری تعالیٰ نےجن دس راتوں کی قسم کھائی ہے جمہور علماء اورمفسرین کےبقول وہ ذی الحجہ ہی کی ابتدائی دس راتیں ہیں ،جوان کی اہمیت اور فضیلت کے لئے کافی ہے۔(تفسیر ابن کثیر:؍۳۹۰)ان دس دنوں میں صاحبِ استطاعت بندوں پردو اعمال کوضروری قرا ر دیاگیا۔(۱)حج۔یہ اسلام کے ارکان میں سے ہے۔(۲)قربانی۔ان دونوں کی تفصیلات بہت ہیں، ہماراموضوع حج کے علاوہ عشرۂ ذی الحجہ کے دیگر احکام پر قدرے روشنی ڈالنا ہے،تاکہ ایک عام آدمی ان ایام میں اپنی عبادات کو بہتر طریقے پر انجام دے سکے۔اور اس تعلق سے معاشرہ میں پائی جانے والی بے اعتدالیوں سے بچ سکے۔


قربانی کا ارادہ رکھنے والے کے لئے بال اور ناخن نہ کاٹنے کا حکم:
ان دس ایام میں سب سے پہلا حکم یہ ہے کہ جولوگ قربانی کا ارادہ رکھتے ہیں وہ ذی الحجہ کا چاند دیکھنے کے بعدقربانی کرنے تک اپنے بال اور نا خن نہ کاٹیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:”مَنْ كَانَ لَهٗ ذِبْحٌ يَذْبَحُهٗ فَإِذَا أَهَلَّ هِلاَلَ ذِى الْحِجَّةِ فَلَا يَأْخُذَنَّ مِنْ شَعْرِهٖ وَلَا مِنْ أَظْفَارِهٖ شَيْئًا حَتّٰى يُضَحِّىَ“(سنن ابو داؤد :کتاب الضحایا:۲۷۹۳) لیکن اس کے ساتھ ایک اور مسئلہ ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ اس صورت میں اگر کسی شخص کو موئے زیر ناف وبغل نکالے ہوئے چالیس دن سے زائد ہوجاتے ہوں توپھر اس کے لئے صاف کرنا ضروری ہے،ان کو ایسے ہی چھوڑے رکھنا احادیث رسول کی خلاف ورزی اور باعث وعید ہے،آپ ﷺ نےچالیس دن تک صفائی نہ کرنے پر سختی فرمائی ہے۔
روزوں کا اہتمام:
دوسرا حکم ان ایام سے متعلق یہ ہےکہ ان دنوں میں دس ذی الحجہ کے علاوہ ۹ دن روزے رکھے جائیں اور رات میں عبادات کا اہتمام کیاجائے،کیونکہ ان ایام میں روزوں اور عبادت کی فضیلت بہت زیادہ ہے،آپ ﷺ نے فرمایا:”مَا مِنأيَّامٍ أحَبُّ إلَى اللہِ أن يُتَعَبَّدَ لَهٗ فِيهَا مِن عَشَرِ ذِی الحِجَّةِ يَعدِلُ صِيَامُ كُلِّ يَومٍ مِنهَا بِصِيَامِ سَنَةٍ وَقِيَامُ كُلِّ لَيلَةٍ مِنهَا بِقِيَامِ لَيلَةِ القَدرِ“(سنن ترمذی:کتاب الصوم: باب ما جاء في العمل في أيام العشر:۷۵۸)اللہ کے نزدیک دوسرے ایام کے مقابلے میں ذی الحجہ کے دس ایام میں عبادت کرنا زیادہ پسندیدہ ہے، ان میں سے ہر دن کا روزہ ایک سال روزہ رکھنے کے برابر ہے ،اور ان کی راتوں میں سے ہر رات کاقیام شبِ قدر کے قیام کےبرابر ہے۔ بلکہ ابن عباسؓ سے صحیح بخاری میں منقول ہے کہ ان ایام میں کیا جانے والا نیک عمل اللہ کے نزدیک جہاد فی سبیل اللہ سے بھی افضل ہے۔(صحیح بخاری:باب فضل العمل فی ایام التشریق:۹۶۹)
عرفہ کا روزہ:
روزوں میں بالخصوص عرفہ کے روزے کی فضیلت بہت زیادہ ہے،ذی الحجہ کی ۹ تاریخ کو عرفہ کہاجاتا ہے،اس دن روزہ کی فضیلت کےبارے میں ارشاد نبوی ہے:”صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللہِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِى قَبْلَهٗ وَالسَّنَةَ الَّتِى بَعْدَهٗ“(صحیح مسلم:کتاب الصیام:۲۸۰۳)عرفہ کے روزے کے بارے میں مجھے اللہ سے امید ہے کہ وہ سال گزشتہ اور سال آئندہ کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے ۔صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ كَصِيَامِ أَلْفِ يَوْمٍ(شعب الایمان:۳۴۸۶)ایک روایت میں ہے کہ عرفہ کا روزہ ہزار روزوں کے برابر ہے۔
تسبیحات کا اہتمام:
ان یام میں روزوں اور رات میں عبادت کے علاوہ تسبیحات وغیرہ کی بھی ترغیب دی گئی ہے،ابن عمرؓ سے ایک روایت کے یہ الفاظ منقول ہے:”فَأَكْثِرُوا فِيهَا مِنَ التَّهْلِيلِ، وَالتَّكْبِيرِ، وَالتَّحْمِيدِ“(شعب الایمان:کتاب الصیام:۳۴۷۴۔مسند ابی عوانۃ:۳۰۲۴) ورجالہ رجال الصحیح۔ (مجمع الزوائد ۴؍۱۶-۱۷)تم ان ایام میں تسبیح ،تحمید ، تہلیل اور تکبیر (سُبْحَان اللّٰہ ،اَلْحَمْدُ لِلّٰہ، لَااِلٰہَ اِلااللّٰہُ
،اَللّٰہُ اَکبَر) کی کثرت رکھو۔ اس لئے خصوصا ان یام میں چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے ان اذکار کا اہتمام کرنا چاہیے۔ بعض ضعیف روایات میں عید کی رات میں بھی عبادت کی بڑی فضیلت آئی ہے، رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص نے عیدین کی راتوں میں ثواب کی نیت سے قیام کیا اس کا دل اس دن نہیں مرے گا جس دن لوگوں کے دل مر جائیں گے۔(المعجم الاوسط:۱۵۹)لیکن ہمارا معاشرہ ان ایام کو ایام تجارت سمجھ کر بازاروں کی زینت بناپھرتا ہے،اور ان بابرکت ایام میں رجوع الی اللہ کے بجائے رجوع الی المال کرکے عبادات سے محروم رہتا ہے۔یہ ہمارے لئے بڑی شرمندگی کی بات ہے۔
تکبیرات تشریق:
ان ایام میں ایک اہم حکم تکبیرات تشریق سے متعلق ہے۔”كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يُكَبِّرُ فِي صَلاَةِ الْفَجْرِ يَوْمَ عَرَفَةَ إِلٰى صَلاَةِ الْعَصْرِ مِنْ آخِرِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ حِينَ يُسَلِّمُ مِنَ الْمَكْتُوبَاتِ“(سنن دار قطنی:۱۷۳۵)اور اگلی روایت میں تکبیراتِ تشریق ان الفاظ میں منقول ہیں:” اَللّٰهُ أَكْبَر اَللّٰهُ أَكْبَر لَا إِلٰهَ إِلَّااللّٰهُ وَاللّٰهُ أَكْبَر اللّٰهُ أَكْبَر وَلِلّٰهِ الْحَمْد“(سنن دار قطنی:۱۷۵۷)نبی علیہ السلام عرفہ کی فجر سے ایام تشریق یعنی تیرہ تاریخ کی عصر تک ہر فرض نماز کے بعد تکبیرات کہا کرتے تھے۔ یہ حدیث اگرچہ محدثین کی جرح سے خالی نہیں لیکن آثار صحابہ وتابعین اور متعددصحابہ کا معمول یہی تھا۔جیساکہ حضرت جابر، حضرت عمر،حضرت علی،حضرت عمار،حضرت عبد اللہ ابن عباس اور حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ وغیرہ کا عمل بھی اسی طرح منقول ہے۔(مستدرک حاکم:کتاب صلاۃ العیدین: ۱۱۱۱تا ۱۱۱۶)
تکبیرات تشریق کی تعداد:
تکبیر ات تشریق ۹ ذی الحجہ کی فجر کی نماز سے ۱۳ ذالحجہ کی عصر تک ہر مرد وعورت پر ہر فرض نماز کے بعد ایک بار پڑھنا واجب ہے،چاہے جماعت کے ساتھ نمازپڑھے،چاہے تنہا پڑھے۔مرد بلندآواز سے اور خواتین آہستہ پڑھیں۔ایک سے زائد دفعہ پڑھنا سنت کے خلاف ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار:۲؍۱۷۷ -۱۷۸،باب العیدین)
البتہ بعض فتاویٰ میں یہ تفصیل ہے کہ اگرایک سے زائد مرتبہ تکبیر کو سنت سمجھ کر پڑھاجائے تو مکروہ ہے،اور اگر محض ذکر سمجھ کر پڑھاجائے تو مکروہ نہیں ہے۔ (مستفاد: فتاویٰ دارالعلوم ۵؍۲۰۴، احسن الفتاویٰ ۴؍۱۵۲)مسبوق کے لئے تکبیرِ تشریق جہراً پڑھنا ضروری نہیں ہے، اور آہستہ پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ، کتاب الصلاۃ،۲؍۶۴۲)
تکبیرات تشریق اگر بھول جائیں؟
فرض نمازکے بعد فوراً تکبیرِ تشریق کہہ لینی چاہئے، اگر دعا مانگتے وقت یاد آجائے تو اُس وقت بھی پڑھ لینے سے واجب ادا ہوجائے گا ،اگر زیادہ وقفہ ہوجائے یا کسی سے سلام یا بات چیت ہوجائے یا اٹھ کر مسجد سے باہر چلاجائے تو اُس کا وقت نکل جائے گا۔ (الفتاویٰ الہندیۃ: ۱؍۱۵۲ ۔رد المحتار ۳؍۶۱۔۶۳)البتہ یاد آنے پر توبہ واستغفار کرلینا چاہیے۔
اگرایام تشریق میں نماز قضاء ہو جائے؟
اگر کسی شخص کی ایام تشریق کے دوران کوئی نماز قضا ہوگئی، اور وہ اُسی سال ایام تشریق کے دوران اس کی قضا کرے، تو اُس پر اس قضا نماز کے بعد تکبیر تشریق کہنا لازم ہوگا۔ ہاں اگر ایام تشریق کے بعد قضا کررہے ہوں تو پھر تکبیر کی قضا نہیں کی جائے گی۔(الفتاویٰ الہندیہ:۱؍۱۵۲ ۔بدائع الصنائع:۲؍۲۰)
نماز عید کے بعد تکبیرات تشریق:
عید کے نماز کے بعد تکبیر کے متعلق علماء احناف کے درمیان اختلاف ہے ،علمائے بلخ عید کی نماز کے بعد تکبیرات کہتے تھے، علامہ شامیؒ نے اسی کو ترجیح دی ہے اور لکھا ہے کہ صحیح قول یہ ہےکہ عیدین کی نماز کے بعد تکبیرات کہنا چاہیے۔ (رد المحتار:۲؍۱۸۰)
قربانی کے فضائل:
ان ایام میں سب سے اہم حکم قربانی کا ہے،لفظ قربان، لغت کے اعتبار سے اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کو کسی کے قرب کا ذریعہ بنایا جائے، اور اصطلاح شرع میں اس ذبیحہ وغیرہ کو کہا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کا تقرّب حاصل کرنے کے لئے کیا جائے۔اس کی ابتداء تو حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے ہوئی،سورۂ مائدہ آیت نمبر ۲۷میں باری تعالیٰ نے حضرت آدم کے دونوں بیٹوں ہابیل اور قابیل کی قربانی کا قصہ بیان فرمایا،ہابیل کی قربانی بارگاہ رب العالمین میں قبولیت سے نوازی گئی اور قابیل کی قربانی قبول نہیں ہوئی،اس وقت سے قربانی کا سلسلہ چلا،اور ہر دور اور ہر امت میں قربانی رہی،لیکن قربانی کا طریقہ الگ رہا،پھر حضرت ابراہیم نےاپنے بیٹے حضرت اسماعیل اعلیہ السلام کا نذرانہ بارگاہ رب العالمین میں پیش کیا، اور حق تعالیٰ نے قرآن پاک میں اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:نَادَیْنٰہُ اَنْ یَّا اِبْرَاھِیْمَ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّویَا ،اور پھر حق تعالیٰ نے اس سنت ابراہیمی کو ہمیشہ کے لئے صاحب استطاعت لوگوں پر واجب کردیا۔ اور صحابہ کرام کے سوال کرنےپرکہ یا رسول اللہ ! مَا هٰذِهِ الأَضَاحِيُّ ؟ان قربانیوں کی حقیقت کیاہے ؟آپ نے فرمایا:سُنَّةُ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ…(سنن ابن ماجہ:کتاب الاضاحی:۳۱۲۷)یہ تمہارے والدحضرت ابراہیمؑ کی سنت ہے (اور مجھےان کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے)صحابہ نے کہا: ہمارے لئے اس میں کیا اجر ہے ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:قربانی کے جانور کے ہرہر بال کے عوض ایک نیکی لکھی جائے گی،،صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول ! کیا اون کا بھی یہی حساب ہے آپ ﷺ نے فرمایا ہاں اون والے جانور کے بھی ہر بال کے عوض ایک نیکی لکھی جائے گی۔ایک اور روایت میں ہے:”مَا عَمِلَ آدَمِیٌّ مِن عَمَلِ يَومِ النَّحرِ أَحَبُّ إلَى اللہِ مِن إِهرَاقِ الدَّمِ إنَّهَا لَتَأتِی يَومَ القِيَامَةِ بِقُرُونِهَا وَأَشعَارِهَا وَأَظلَافِهَا وَأنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَاللہِ بِمَكَانٍ قَبلَ أَن يَّقَعَ مِنَ الأَرضِ فَطِيبُوا بِهَا نَفسًا “(سنن ترمذی:کتاب الاضاحی:۱۴۹۳)کہ یوم النحر یعنی دسویں ذی الحجہ کے دن ابن آدم کا کوئی عمل اللہ تعالیٰ کو قربانی سے زیادہ محبوب نہیں ہے، قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ زندہ ہوکر آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے پاس قبول ہوجاتا ہے، لہذا اے اللہ کے بندو! دل کی پوری خوشی سے قربانیاں کیا کرو۔لیکن قربانی کی یہ فضیلت اور ثواب ان حضرات کے لئے ہے،جن کی قربانی خالص اللہ کے لئے ہو،ریاکاری،نام و نمود اور شہرت ان کا مقصد نہ ہو،نہ بازاروں میں وہ اس کی تشہیر کریں، اور نہ لوگوں کے سامنے اس کی قیمتیں بیان کریں۔بلکہ خالص اللہ کی رضا کے لئے اس کےآداب اور ضروری امور کا لحاظ کرتے ہوئے قربانی کرتے ہیں تو اللہ کی ذات سے امید ہے کہ ان کی قربانی بارگاہ رب العالمین میں قبول کی جائے گی۔
قربانی کے وجوب کے شرائط:
اس عبادت کو انجام دینے کے لئے شریعت نے دیگر عبادات کی طرح اس کے بھی کچھ شرائط اور حدود بیان کئے ہیں،جو اگر پائے جاتے ہیں تو قربانی واجب ہوتی ہے ورنہ نہیں ،فقہاء نے اس کے درجِ ذیل شرائط بیان کئے ہیں: (ا)مسلمان ہو۔ کیونکہ کافر عبادت کا اہل نہیں ہے،اس لئے اس پر قربانی واجب نہیں۔(بدائع الصنائع:کتاب الاضحیۃ:۵؍۶۳ ) (۲) آزاد ہو۔کیونکہ غللام کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا ،بلکہ اس کا آقا اس کے مال کا مالک ہوتا ہے۔ اس لئے جب اس کی ملکیت میں مال ہی نہیں آتاہےتو قربانی کیسے واجب ہوگی،جب کہ یہ خالص مالی عبادت ہے۔(حوالۂ سابق)(۳)مقیم ہو۔حضرت علیؓ سے روایت ہےکہ مسافر پر قربانی واجب نہیں ۔(بدائع الصنائع:۵؍۶۳ )المحلیٰ بالآثار:۶؍۳۷) (۴)عا قل ہو۔مجنون اور دیوانہ کے پاس اگرمال ہوتو قربانی اس پر واجب نہیں ہے۔ (۵)بالغ ہو۔بچہ کے پاس اگر مال ہو تو اس پر بھی قربانی ضروری نہیں ہے۔کیونکہ مجنون اور بچے شریعت کے احکام کے مکلف نہیں ہیں۔(سنن نسائی:کتاب الطلاق،۳۴۳۲)البتہ ولی اپنے مال سے قربانی کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔ ( رد المحتار: ۶؍۳۱۳((۶)صاحب استطاعت اور صاحبِ نصاب ہو۔جیساکہ حدیث میں آپ ﷺ نے یہ قید ذکر فرمائی ہے۔(مستدرک حاکم:کتاب الاضاحی:۷۵۶۵)
صاحب استطاعت کی وضاحت:
صاحب استطاعت سےمرادایسے نصاب کا مالک ہونا جو قرض اور حوائج اصلیہ سے زائد ہو یعنی رہائش کا مکان، کھانے پینے کا سامان، استعمال کے کپڑے، دیگر ضروری استعمال کی اشیاء سواری وغیرہ کے علاوہ ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کے برابر نقد رقم اور دوسرا سامان، مکان، گاڑی موجود ہوں تو اس پر قربانی واجب ہے۔ قربانی کے واجب ہونے کے لئے اس مال پرسال کا گذرنا اور مال نامی ہوناشرط نہیں ہے، اس لئے وہ آدمی جس کے پاس رہائش کے مکان کے علاوہ زائد مکان موجود ہے، خواہ تجارت کے لئے ہو یا نہ ہو، ضروری مکان کے علاوہ پلاٹ ہیں،ضروری سواری کے علاوہ دوسری گاڑیاں ہیں ایسے ہی گھر کی ضرورت سے زائد چیزیں،کپڑے،سامان ہو، اور اس کی قیمت چاندی کے نصاب کے بقدر ہوجاتی ہو تو ایسے شخص پر بھی قربانی واجب ہوگی ۔(الفتاوی الھندیۃ ،کتاب الاضحیۃ، ۵؍۲۹۲)نصاب کی مقدار موجودہ اوزان کے اعتبار سے (87گرام 480ملی گرام سونا) یا (612گرام 350ملی گرام چاندی)ہے،اگر کوئی ان چیزوں کا یا اتنی رقم کا مالک ہویا کسی کے پاس کچھ سونا اور کچھ چاندی ہو اور ان کی مجموعی قیمت سونے یا چاندی کے نصاب کی قیمت کوپہنچ رہی ہوتو وہ بھی صاحب نصاب شمار ہوگا،اس پر بھی قربانی واجب ہوگی۔ چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔
کیا ایک قربانی سارے گھر والوں کی طرف سے کافی ہے؟
قربانی کے وجوب کے سلسلہ میں اوپر ذکر کیاگیا ہے کہ ہر صاحب نصاب پر قربانی کرنا ضروری ہے،اگر گھر میں کئی افراد ہوں اور وہ سب صاحب نصاب ہوتو ان سب پر قربانی کرنا ضروری ہوگا،کسی ایک کے قربانی کرنے سے سب کی طرف وہ قربانی کافی نہیں ہوگی۔کیونکہ نبی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:”مَن كَان لَهٗ مَالٌ فَلَم يُضَحِّّ فَلَا يَقرُبَنَّ مُصَلَّانَا وَ قِالَ مَرَّةً : مَن وَجَدَ سَعَةً فَلَم يَذبَح فَلَا يَقرُبَنَّ مُصَلَّانَا “ هذا حديث صحيح الإسناد و لم يخرجاه تعليق الذهبي في التلخيص : صحيح۔(مستدرک حاکم:کتاب الاضاحی:۷۵۶۵۔سنن ابن ماجہ:۳۱۲۳ودار قطنی)جس کے پاس مال ہو اس کے باوجود وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ نہ آئے۔اس میں اللہ کے نبی نے وضاحت کے ساتھ فرمایاہےکہ ہر صاحب استطاعت پر قربانی کرنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ ایک حدیث حضرت جابرؓ سے مروی ہے: ”نَحَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللہ عَامَ الْحُدَيْبِيَّةِ الْبَدَنَةَ عَنْ سَبْعَةٍ وَالْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ“(صحیح مسلم:کتاب الحج:۳۲۴۶) ہم نے حدیبیہ کے سال سات آدمیوں کی جانب سے ایک اونٹ اور سات آدمیوں کی جانب سے ایک گائے قربان کی۔اگر سب کی طرف سے ایک کافی ہوجاتا تو سات کی طرف سے اسے ذبح کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ایسے ہی ایک روایت حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے:”أتَاهُ رَجُلٌ فَقَالَاِنَّ عَلَیَّ بَدَنَةً . وَأنَا مُوسِرٌ بِهَا . وَلَا أَجِدُهَا فَأَشتَرِيَهَا . فَأمَرَهٗ النَّبِیُّﷺ أَن يَّبتَاعَ سَبعَ شِيَاٍه فَيَذبَحُهُنَّ“(سنن ابن ماجہ:کتاب الاضاحی:۳۱۳۶)ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور کہنے لگاکہ مجھ پر ایک بڑا جانور واجب ہوچکا،اور میں مال دار ہوں،اور میں بڑا جانور نہیں پاتا ہوں تو کیا کروں؟آپ نے فرمایاکہ سات بکریاں خرید کر ان کو ذبح کرو۔پتہ چلاکہ اللہ کے نبی نے سات چھوٹے جانوروں کو ایک بڑے جانورکے قائم مقام مانا ہے، اس سے ثابت ہواکہ ایک چھوٹے جانور کی قربانی ایک آدمی ہی کی طرف سے ہوسکتی ہے،ورنہ پھر سات کی قید کا کیا مطلب؟ ایسے ہی بڑے جانور میں سات ہی شریک ہوسکتے ہیں،سات سے زائد نہیں۔نیز علامہ ظفر احمد عثمانیؒ نے اعلاء السنن میں یہ روایت نقل کی ہے کہ ایک بکری ایک ہی آدمی کی جانب سے کافی ہوگی۔ اَلشَّاۃُ عَن وَاحِدٍ(اعلاء السنن:۱۲؍۲۱۰)رہی وہ روایات جن میں یہ مذکور ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے ایک ہی دنبہ اپنی جانب سے اور ساری امت کی جانب سے یا ایک اپنی طرف سے اور ایک امت کی جانب سےقربان کیا تھا: (سنن ابو داؤد:کتاب الضحایا:۲۸۱۲)یا گھر کا ایک فرد قربانی کرتا اور سب اس میں سےکھاتے تواس کا جواب یہ ہےکہ یہ سب احادیث اس پس منظر میں ہیں کہ اس زمانے میں صحابہ کے پاس اتنی مالی وسعت نہیں تھی کہ سب قربانی کرسکیں،اس لئے کوئی ایک قربانی کرتے اور سب اس میں سے کھاتے تھے،اس لئے فقہاء اور محدثین نے ان روایات کو نفل قربانی اور ثواب میں اشتراک پر محمول کیا ہے،دوسری بات یہ ہےکہ اللہ کے نبی نے حدیث میں وضاحت کی ہے یہ قربانی ان لوگوں کی جانب سے ہے جو میری امت میں قربانی کی استطاعت نہیں رکھتے،جب ان کے لئے قربانی ہی نہیں ہے تو ظاہر ہےکہ اللہ کے نبی کی یہ قربانی ثواب کے اعتبار سے شریک کرنے کے لئے تھی،ورنہ مسئلہ یوں ہونا چاہیے کہ ایک آدمی کی قربانی ایک گھر کی طرف سے نہیں بلکہ پوری امت کی طرف سے کافی ہوجائے ۔جیساکہ اللہ کے نبی نے کیا ہے۔اس کے علاوہ قربانی مستقل ایک خالص مالی عبادت ہے،احادیث میں اسے صاحب استطاعت لوگوں پر ضروری قرار دیاگیا ہے۔اور شریعت میں بندوں کو احکام اور عبادات کا الگ الگ مکلف بنایاگیا ہے،جیسے نماز روزہ اورزکوۃوغیرہ جب یہ عبادات کسی جانب سے کوئی ادا کرے تو نہ ادا کرنے کاحکم ہے اور نہ یہ عبادات کسی اور کی جانب سے ادا ہوتی ہیں تو قربانی بھی جوکہ ایک مستقل عبات ہے وہ ایک آدمی کی جانب سے کرنے سے سارے گھروالوں کی طرف سے کیسے ادا ہوگی؟
بالغ اولاد کی طرف سےقربانی:
اوپر کی تفصیل سے یہ مسئلہ بھی واضح ہوتا ہےکہ بالغ اولاد کی طرف سے قربانی کرنا باپ کے ذمہ ضروری نہیں۔ اگراولاد مالدار ہے تو وہ خود قربانی کرے یا باپ کو اجازت دیدے۔ اور وہ ان کی اجازت سے یا ان کو اطلاع دے کر ان کی طرف سے قربانی کرسکتا ہے۔ یہی حکم بیوی کے لئے بھی ہے کہ شوہر کے ذمہ اس کی قربانی ضروری نہیں۔ البتہ شوہر بیوی کی جازت سے اس کی قربانی کرسکتا ہے۔(رد المحتار:کتاب الأضحیۃ:۶؍۳۱۵)
میت کی طرف سے قربانی:
قربانی خود اپنی طرف سے اور اپنے زندہ اور گزرے ہوئےبزرگوں اور رسول اللہ ﷺکے نام سے کی جاسکتی ہے۔(مستدرک حاکم ۴؍۲۵۵۔مسند أحمد: ۲۷۷۳۲۔عون المعبود شرح سنن أبی داؤد ۳؍۵۰)
مقروض شخص پر قربانی:
اگر کسی آدمی کے اوپر قرض ہو، لیکن اس کے پاس کچھ مال بھی ہو، تو اگر یہ مال اتنا ہو کہ قرض ادا کرنے کے بعد بھی اس کے پاس بنیادی ضرورت سے زائد ، نصاب کے بقدر یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر مال باقی رہتا ہے، تو ایسے شخص پر قربانی واجب ہوگی، او راگر قرض ادا کرنے کے بعد نصاب سے کم مال بچے، تو اس پر قربانی واجب نہیں ہوگی۔ (الفتاوی الہندیۃ :۵؍۲۹۲)
قربانی سے قبل صاحب قربانی کا انتقال ہوجائے؟
قربانی کے دنوں میں جانور کو ذبح کرنے سے قبل اگر صاحب قربانی کاانتقال ہوجائے تو اس کی قربانی ساقط ہوجائے گی، بشرطیکہ آدمی غنی ہو فقیر نہ ہو۔ البتہ ورثاء اگر میت کی جانب سے قربانی کردیں تو بہترہے۔(الفتاوی الھندیۃ: ۵؍۳۰۵)
ایام قربانی کتنے دن ہیں؟
قربانی سے متعلق ایک اہم مسئلہ ایام قربانی کے بارے میں ہے کہ آیا قربانی تین دن ہیں یا چار دن،اس بارے میں ائمہ احناف کا موقف یہ ہےکہ ایام قربانی تین دن ہیں،۱۱،۱۰ اور ۱۲ ذی الحجہ۔اگر ان دنوں میں قربانی کی جائے تو قربانی ہوگی،اور اگر ان کے بعد کی جائے تو قربانی درست نہیں ہوگی۔اس کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں،حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے:”أنَّ رَسُولَ اللہِﷺ نہی أن تُؤکَلَ لُحُومُ الأضَاحِي بَعدَ ثَلَاثٍ“(صحیح مسلم:کتاب الأضاحي،۱۹۷۰،صحیح بخاری) کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء میں قربانی کا گوشت ۳دن سے زیادہ جمع کرکے رکھنے سے منع فرمایا تھا۔ اور ان تین دنوں کی ابتداء ذی الحجہ کی دسویں تاریخ سے ہوگی، جیساکہ امام نوویؒ نے قاضی عیاضؒ سے نقل فرمایا ہے۔ (نووي علی شرح مسلم ۲؍۱۵۸)اب اگرچہ تین دن سے زیادہ تک گوشت جمع کرنے کی ممانعت ختم ہوچکی ہے؛ لیکن حدیث میں ۳؍دن کی صراحت کرنا خود اِس بات کی دلیل ہے کہ قربانی کے اَیام یہی تین دن ہیں، ورنہ اِس سے زیادہ دنوں کا ذکر کیا جاتا۔علاوہ ازیں سیدنا حضرت عمر، حضرت عبد اللہ ابن عمر، حضرت انس، حضرت علی، حضرت ابن عباس اور حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہم سے صراحۃً مروی ہے کہ قربانی کے ایام ۳ دن ہیں، ان اقوال میں ۳کا عدد صاف موجود ہے، اور ان تین دنوں کی تعیین بھی کی گئی ہے یعنی ذی الحجہ کی دسویں تاریخ اور اس کے بعد دو دن، جس میں دوسرے کسی احتمال کی گنجائش ہی نہیں ہے۔”عن عمرؓ: إنَّمَا النَّحرُ فِیھٰذِہِ الأَیَّامِ الثَّلَاثَۃِ“(إعلاء السنن ۱۷؍۲۳۵)”عَن عَبدِاللہِ ابنِ عُمَرَؓ: اَلأضحٰی یَومَانَِ بَعدَ یَومِ الأضحٰی“(المؤطا للإمام مالک ۱۸۸، إعلاء السنن ۱۷؍۲۳۳)”عَن أنَسٍؓ: اَلأضحٰی یَومُ النَّحرِ وَیَومَانِبَعدَہٗ“ (إعلاء السنن ۱۷؍۲۳۶)”عَن أبِي ھُرَیرَۃَ ؓ: اَلأضحٰی ثَلَاثَۃُأیَّامٍ“(إعلاء السنن ۱۷؍۲۳۶)۔ بہت سے اکابر تابعین سے بھی ۳ دن ایام قربانی ہونے کا قول مروی ہے۔ (عیني شرح الہدایۃ ۴؍۱۴۴)اوراحتیاط کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ قربانی انہیں تین دنوں میں کی جائے۔ کیونکہ کہ ابتدائی تین دن پر تو بالاتفاق ایام قربانی ہونے پر اجماع ہے، اختلاف چوتھے دن کے بارے میں ہے؛ لہٰذا احتیاط اسی میں ہے کہ چوتھے دن سے پہلے پہلے ہی قربانی کردیں ۔
قربانی کاوقت:
قربانی میں ایک اہم مسئلہ وقت سے متعلق ہے،شہر والوں کے لئے اس کا وقت نماز کے بعد ہے،اگر کسی نے نماز سے قبل قربانی کرلی تو اسے دوبارہ قربانی کرنی ضروری ہے، احادیث میں آپ ﷺ نے دوبارہ قربانی کرنے کا حکم دیا ہے۔”عَن أنَسٍ قَالَ : قَالَ النَّبِیُّﷺ يَومُ النَّحرِ مَن كَانَ ذَبَحَ قَبلَ الصَّلَاةِ فَليُعِد “(صحیح بخاری:کتاب الاضاحی:۵۲۲۹)یہی حکم ان لوگوں کا بھی ہے جو ایسے گاؤں یا دیہات میں رہتے ہیں جہاں کے لوگوں پر جمعہ اورعیدین واجب ہے۔ وہاں نماز سے قبل قربانی کرنا جائز نہیں ہے،اگر کسی نے کی ہے اس کو اعادہ کرنا پڑے گا۔ہاں ایسے دیہات جہاں کے لوگوں پر جمعہ وعیدین واجب نہیں ہیں تو ان کو طلوع فجر کے بعدعید کی نماز سے قبل بھی قربانی کرنا صحیح ہے۔ (الدر مع الرد۹؍۴۶۱-۴۶۲ ۔الفتاویٰ الہندیۃ: ۱؍۲۹۵) کیونکہ اَحادیثِ شریفہ میں عید الاضحی کے دن اَفعال کی یہ ترتیب بیان فرمائی گئی ہے کہ اَولاً نماز پڑھی جائے، پھر قربانی کی جائے، اِس سے یہ معلوم ہوا کہ جہاں عید کی نماز ہی نہیں ہوتی، وہاں یہ ترتیب بھی ملحوظ نہ ہوگی اور قربانی نماز عید سے قبل بھی جائز ہوجائے گی۔ (بذل المجھود شرح ابی داؤد: ۱۳؍۲۴ )
شہری کی قربانی دیہات میں:اگر شہری اپنا جانور قربانی کے لئے دیہات میں بھیج دے تووہاں اس کی قربانی نماز عید سے قبل بھی درست ہے ۔ (الدر مع الرد : ۶؍۳۱۸،۳۱۹)
رات میں قربانی کرنا :دسویں ذی الحجہ سے بارہویں ذی الحجہ تک جس طرح دن میں قربانی کے جانور کو ذبح کرنا جائز ہے، اسی طرح درمیان کی دو راتوں میں بھی قربانی کے جانور کو ذبح کرنا جائز ہے، مگر مکروہ ہے، اور اس کراہت کی علت رات کی تاریکی میں مطلوبہ رگوں میں سے کسی رگ کے نہ کٹنے یا مقدار ذبح سے زائد کٹ جانے کا اندیشہ ہے، لیکن اگر رات میں ایسی معقول روشنی کا انتظام ہو کہ اس طرح کا شبہ واندیشہ نہ رہے، تو یہ کراہت باقی نہیں رہے گی، اور رات میں بھی بلا کراہت قربانی کے جانور کو ذبح کرنا جائز ہوگا ۔ ( الدر المختارکتاب الاضحیہ:۹؍۳۸۸)
ایامِ اضحیہ میں قربانی نہ کی جاسکے؟
اگر قربانی کے دن گزر گئے اور نا واقفیت یا غفلت یا کسی عذر کی بنا پر کوئی آدمی قربانی نہیں کر سکا تو اگر جانور موجود ہے تو اس کو زندہ صدقہ کرنا چاہے تو زندہ صدقہ کرسکتا ہے،اور اگر ذبح کرکے صدقہ کرناچاہے تو اس کا بھی اختیار ہے۔لیکن ذبح کرکے خود کھانا جائز نہیں ہے،اگر کسی نے کھالیا تو جتنا کھایا اتنی قیمت کا صدقہ کرنا ضروری ہے۔ اور اگر کسی نے صاحب استطاعت ہونے کے باوجود جانور ہی نہیں خریداتھاتو قربانی کی قیمت فقراء ومساکین پر صدقہ کرنا واجب ہے۔(رد المحتار: ۹؍۳۸۸۔المحیط البرہاني:۶؍۴۷۷)
بیرون ممالک کے افراد کاہندوستان وغیرہ میں قربانی کرنا:
جو حضرات بیرون ملک رہتے ہیں،اور وہ وہاں کی ۱۳؍ ذی الحجہ کو اگر قربانی کرنا چاہیں اور ہندوستان یا پاکستان وغیرہ میں ۱۲ ذی الحجہ ہوتو کیا وہ اس دن قربانی کراسکتے ہیں یا نہیں؟تو اس بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ وہاں کا رہنے والا وکالۃً یہاں اپنی قربانی کراسکتا ہے،اوراس کی قربانی بلا تردد درست ہو جائے گی،اس لیے کہ سببِ وجوب یعنی ایام نحر میں صاحب استطاعت ہونا اُس کے حق میں پہلے ہی پایا جاچکا ہے، اور جس جگہ قربانی کا جانور موجود ہے وہاں شرطِ ادا (قربانی کا وقت) متحقق ہے؛ لہٰذا قربانی کی صحت میں کوئی چیز مانع نہیں ہےکیونکہ فقہاء نے لکھا ہے کہ قربانی کے معاملے میں اختلافِ مطالع بہرحال معتبر ہوگا۔(رد المحتار: کتاب الصوم / مطلب في اختلاف المطالع ۳؍۳۶۴ )نیزاس مسئلہ کی تائید اس جزئیہ سےبھی ہوتی ہے کہ آج کے دور میں اگر سعودیہ یا کسی اور ملک کا رہنے والا شخص وہاں کی ۱۳؍ ذی الحجہ کو بذریعہ ہوائی جہاز روانہ ہو کر ہندوستان کی ۱۲؍ ذی الحجہ کے غروب سے قبل ہندوستان پہنچ جائے تو وہ بذات خود اپنی قربانی کرسکتا ہے اور اس کا امکان موجود بھی ہے تو جوشخص اس عمل کو خود انجام دے سکتا ہے تواس میں دوسرے کو وکیل بنانے میں بھی تردد نہیں ہونا چاہئے۔گویا اصولی طور پردو باتیں یاد رکھنی چاہیے۔( ۱)نفسِ وجوب، یعنی ذمہ میں قربانی کا واجب ہونا،اس کا وقت ۱۰ ذی الحجہ ہے، جہاں آدمی ہو وہاں کے اعتبار سے اگر۱۰؍ ذی الحجہ کی صبح صادق طلوع ہوجائے تو اس کے ذمہ قربانی واجب ہوجائے گی۔(۲)وجوب ِاداء۔اس کا وقت ۱۲ ذی الحجہ تک ہے،اور اس میں جہاں قربانی کی جارہی ہے وہاں کے وقت کا اعتبار ہوتا ہے۔(الخانیۃ علی ہامش الہندیۃ ۳؍۳۴۵۔ردالمحتار:۹؍۴۶۱)اس لئے قربانی کرانے والا اپنے ملک میں قربانی واجب ہونے کے بعد اپنی طرف سے دوسرے ملک میں قربانی کا وکیل بنانا چاہے جب کہ وہاں ۱۲ ذی الحجہ ہو تو وہاں اس کی قربانی کرنا جائز ہوگا۔(کتاب الفتاویٰ :۹/۲۷فتاویٰ دارالعلوم: ۱۵؍۔۵۱۲۔کتاب النوازل)
صحتِ قربانی کے شرائط:
قربانی کی ادائیگی کی چند شرطیں ہیں، جانور ذبح کرتے وقت ان کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے،ان کی رعایت نہ ہونے کی صورت میں یاتوذبیحہ ہی حلال نہیں ہوتا۔یا قربانی ادا نہیں ہوتی۔جو مندرجہ ذیل ہیں :
(۱)وقت کاہونا۔(بدائع الصنائع:۵؍۷۳)۔(۲)جانور کا عیوب فاحشہ سے صحیح سالم ہونا۔(بدائع الصنائع:۵؍۷۵)۔(۳)جانور کا مالک ہونا۔(۴)جانور کی عمرکا ہونا۔(۵)جانور میں قربت اور رضائے الہی کی نیت کرنا۔ اگر جانور ذبح کرتے وقت نیت قربت کی نہیں ہے تو قربانی درست نہیں ہوگی۔اگرکوئی بڑے جانور میں کسی اور نیت کے ساتھ شریک ہوجائےجس میں نیت قربانی یا ثواب کی نہیں ہے تو بڑے جانور میں کسی کی بھی قربانی صحیح نہ ہوگی۔ (بدائع الصنائع:۵/۷۱)البتہ عقیقہ یا ولیمہ کی نیت سے کوئی بڑے جانور میں شریک ہوتو سارے شرکاءکی قربانی درست ہوجائےگی۔ (۶)اگر کسی کی طرف سے قربانی کی جارہی ہوتو صراحتا یا دلالۃ اس کی اجازت کا ہونا۔(بدائع الصنائع:۵/۷۳)(۷)شرعی طریقے پر جانور ذبح کرنا۔(بدائع الصنائع:۵/۷۱)پستول یا کسی اور چیز کے ذریعہ اگرجانور کو ذبح کیاجائے کہ جس سے جانور کی جان ہی نکل جائے اور جان نکلنے سے قبل اسے ذبح نہ کیاجائے تو وہ ذبیحہ اوراس کی قربانی صحیح نہیں ہوگی۔( الفتاوی الہندیۃ۵؍۲۷۶)(۸)‍ذابح کا تسمیہ یا تکبیر کہنا۔ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ بوقت ذبح ’’ بسم اللہ‘‘ کا بزبان عربی کہنا ضروری ہے، جب کہ صحیح بات یہ ہے کہ تسمیہ کسی بھی زبان میں خواہ ذابح (ذبح کرنے والا) عربی جانتا ہو یا نہ جانتا ہو ، دونوں صورتوں میں قربانی ہوجائے گی ( الفتاوی الہندیۃ :۵؍۲۸۵)بعض لوگ بوقت ذبح ’’ بسم اللہ‘‘ کے ساتھ ’’ اللہ اکبر‘‘ کہنا بھی ضروری سمجھتے ہیں، جب کہ ذبح کے وقت صرف ’’ بسم اللہ ‘‘ کہنا بھی کافی ہے(۱)، البتہ ’’ بسم اللہ اللہ اکبر‘‘ دونوں کہنا سنت ہے۔(ردالمحتار: ۹؍۳۶۴)(۹)ذبح میں کم از کم تین رگوں کا کٹنا۔ قربانی میں سب سے اہم اور نازک مسئلہ یہی ہے، در اصل جانور کے گلے میں چار شہہ رگیں ہوتی ہیں: (۱) حُلقوم:جس سے سانس لی جاتی ہے۔(۲) مَری:جس سے کھانا پانی اندر جاتا ہے۔(۳-۴)دورانِ خون والی دو رگیں۔جانور کے شرعی طور پرحلال ہونے کے لئے کم از کم اِن چار رگوں میں سے تین رگوں کا کٹنا ضروری ہے، اگر کم از کم تین رگیں نہیں کٹتی ہیں تو پھر وہ جانور حلال نہیں ہوتا۔اس لئے اولا تو پوری رگوں کے کٹنے کا لحاظ کرناچاہیے،ورنہ کم از کم تین کاکٹنا ضروری ہے۔ تاکہ اس کی حلت میں کسی قسم کا شبہ نہ ہو۔ (۱۰)ذابح کا مسلمان یا کم از کم کتابی ہونا۔(فتاویٰ ہندیہ: ۵؍۲۸۵ )(۱۱)جانوروں کا بکرا،بکری،دنبہ،دنبی،گائے،بھینس، بیل،اور اونٹ میں سے ہونا۔ان کے علاوہ کی قربانی جائز نہیں۔(بدائع الصنائع:۵؍۶۹)
کن جانوروں کی قربانی کی جاسکتی ہے؟
قربانی میں ایک اہم مسئلہ جانوروں کی تعیین اور ان کی عمروں کا ہے،یہاں یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ قربانی کے جانوروں کی تعیین شرعی سماعی ہے،قیاس کو اس میں دخل نہیں، اور شریعتِ مقدسہ میں صرف تین قسم کے جانوروں کی قربانی درست ہے۔پہلی قسم: اونٹ نر ومادہ۔ دوسری قسم:…بکرا بکری، مینڈھا(دنبہ) بھیڑ، نرومادہ۔اسی کو قرآن پاک میں الگ الگ بیان کیاگیا ہے۔تیسری قسم:گائے، بھینس نرومادہ۔ان کے علاوہ کسی بھی جانور کی قربانی کرنا درست نہیں ہے۔کماقال اللہ تعالیٰ: ’’ثَمَانِیَۃَ اَزْوَاجٍ مِّنَ الضَاْ نِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَیْنِ … وَمِنَ الْاِبِلِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَیْنِ‘‘(انعام: ۱۴۳، ۱۴۴)ترجمہ: آٹھ جانور ہیں، دو بھیڑوں میں سے ، دو بکریوں میں سے ، دو اونٹوں میں سے اور دو گائیوں میں سے۔واضح رہنا چاہیےکہ قربانی کے جانوروں میں بھینس بھی داخل ہے کیونکہ یہ بھی گائے کی ایک قسم ہے ،اس لئے بھینس کی قربانی بھی جائز ہے۔کیونکہ اس پراجماعِ امت ہے:’’وَاَجْمَعُوْا عَلیٰ اَنَّ حُکْمَ الْجَوَامِیْسِ حُکْمُ الْبَقَرِ‘‘(کتاب الاجماع لابن المنذر:۳۷)اس کے علاوہ لغت کے اعتبار سے بھی یہ بقر میں شامل ہے۔(المنجد: ۱۰۱) نیزحضرت حسن بصری سےبھی ایک اثر اسی طرح منقول ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ:۱۰۸۴۸)
کس جانورکی قربانی افضل ہے؟
فقہاء نے اِس سلسلہ میں کثرتِ قیمت کا اعتبار کیا ہے، یعنی اگر گائے وغیرہ کے ساتویں حصہ سے دنبہ یا بکری کی قیمت زیادہ ہے تودنبہ ہی زیادہ اَفضل ہے، اور اگر قیمت برابر ہو تو عمدہ اور زیادہ گوشت والے جانور کو ترجیح ہوگی، اِسی سے یہ بھی مفہوم ہوا کہ اگر کوئی اکیلا شخص بڑا جانور صرف اپنی طرف سے بلاشرکتِ غیرے قربانی کرنا چاہے اور اُس کی قیمت بکری سے زیادہ ہو تو قیمت اور گوشت کے زیادہ ہونے کی وجہ سے وہی بڑا جانور قربان کرنا اُس کے لئے افضل ہوگا (المستدرک للحاکم : کتاب الأضاحي ۴؍۲۵۷ رقم: ۷۵۶۱۔الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الأضحیۃ : ۵؍۲۹۹)
جانوروں کی عمریں:
جانوروں کی قربانی میں ان کی عمر کا لحاظ بھی بہت ضروری ہے،کیونکہ اس کے بغیر قربانی درست نہیں ہوتی،حضرت جابرؓ سے روایت ہے:’’عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ االلہؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللِﷺ لَا تَذْبَحُوْا اِلَّا مُسِنَّۃً اِلَّا اَنْ یُّعْسَرَ عَلَیْکُمْ فَتَذْ بَحُوْا جَذْ عَۃً مِّنَ الضَأنِ‘‘(صحیح مسلم:کتاب الاضاحی:۱۹۶۳)آپ ﷺ نے فرمایا: قربانی کے لیے ‘‘مسنۃ’’ عمر والا جانور ذبح کرو ،ہاں اگر ایسا جانور میسر نہ ہو تو پھر چھ ما ہ کا دنبہ ذبح کرو جو سال کا لگتا ہو۔اس حدیث میں دو باتیں قابل غور ہیں:نمبر۱: اس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قربانی کے جانور کے لیے لفظ ’’مسنہ‘‘ استعمال فرمایا ہے،بقول امام ترمذی ؒ فقہاء کرام احادیث کے معانی ومطالب زیادہ جانتے ہیں۔ (جامع الترمذی:باب غسل المیت:۱؍۱۹۳)اس لئے فقہاء نے اس مطلب یہ بیان فرمایا ہےکہ ثنی سے مراد بھیڑ بکریوں میں وہ ہے جو ایک سال کی ہو،گائے اوربھینس دو سال کی اور اونٹ پانچ سال کا ہو۔(تکملہ فتح الملہم شرح صحیح مسلم:۳؍ ۵۵۸۔فتاویٰ ہندیہ:۵؍۳۶۷)نیز مذکورہ حدیث میں’’مسنہ‘‘ نہ ملنے کی صورت میں’’جَذْعَۃٌ مِّنَ الضَّأنِ‘‘ کا حکم فرمایا اس سے مراد وہ دنبہ ہے جو چھ ماہ کا ہو۔مگر دیکھنے میں ایک سال کا لگتا ہو۔اس لئے اگر دنبہ چھ ماہ کا ہو لیکن دیکھنے میں سال بھر کا لگتا ہوتو اس کی قربانی کرسکتے ہیں۔ (البحر الرائق:۸؍۲۰۲)اسی سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ قربانی کے جانوروں میں عمروں کا لحاظ مطلوب ہے۔ البتہ بکرا اور بکری اس سے مستثنیٰ ہیں،ان میں کم از کم ایک سال کا ہونا ضروری ہے،اگر ایک سال سے ایک دن بھی کم ہوتو ان کی قربانی درست نہیں ہے۔(رد المحتار:۹؍۳۸۹)کیونکہ آپﷺ نےصرف معز جب کہ ایک سال کا کم ہوا اس کی اجازت دی تھی۔بکرا بکری کی نہیں۔
ذبح کا طریقہ اور اس کے چند آداب ومستحبات:
جانوروں کے ذبح کرنے میں ان کی عمروں کے ساتھ ساتھ شریعت میں کچھ اور امور کی بھی رعایت مطلوب ہے،جسے ہم آداب اور مستحباب کہتے ہیں،اوراحادیث میں ان کی ترغیب دی گئی ہے،حضرت شداد بن اوس سے نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں:”إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ الإِحْسَانَ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَةَ وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذَّبْحَ وَلْيُحِدَّ أَحَدُكُمْ شَفْرَتَهُ فَلْيُرِحْ ذَبِيحَتَهُ“(صحیح مسلم:کتاب الصید والذبائح،۵۱۶۷)اس پس منظر میں علماء نے اس کے کچھ آداب بیان کئے ہیں،جو درج ذیل ہیں:
(۱)جانور قبل رخ لٹایاجائے۔بلا عذر اِس سنت کو چھوڑ دینا مکروہ ہے۔ البتہ اگر اس طرح لٹانے میں کوئی عذر یا دشواری ہو، تو جس طرح سہولت ہولٹاکر ذبح کردیا جائے، کوئی کراہت نہیں ہوگی۔ (۲) ذبح کرنے سے پہلےاگریہ دعا یاد ہو تو پڑھی جائے:”إنِّيْ وَجَّھْتُ وَجْھِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوَاتِ وَالأرْضَ حَنِیْفًا وَّمَا أنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْن ، إنَّ صَلٰوتِيْ وَنُسُکِيْ وَمَحْیَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ، لا شَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰلِکَ أمِرْتُ وَأنَا أوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ ، اَللّٰھُمَّ مِنْکَ وَلَکَ“ ، پھر ’’ بِسْمِ اللہِ اَللہُ اَکْبَرُ ‘‘ کہہ کر ذبح کیاجائے ۔(سنن أبی داؤد،کتاب الضحایا،۲؍ ۳۸۶ ) (۳) ذبح کرنے کے بعد یہ الفاظ اگر یاد ہو تو پڑھیں: ’’ اَللّٰہُمَّ تَقَبَّلْ منی“… اور اگر کسی اور کی طرف سے ذبح کررہا ہے تو ’’ مِنِّيْ‘‘ کی جگہ ’’ مِنْ فُلانٍ‘‘یعنی جس کی جانب سے جانورذبح کیا جارہا ہے اس کا نام لے۔ اور ان الفاظ کو ذبح سے قبل بھی کہاجاسکتا ہے اور ذبح کے بعد بھی۔دونوں باتیں احادیث میں مذکور ہے۔فتاویٰ دارالعلوم میں شامی کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ذبح کے بعد کہنا زیادہ بہتر ہے۔( فتاویٰ دارالعلوم:۱۵؍۵۱۹)کتب فتاویٰ میں عام طور پر قربانی کی دعا ان الفاظ کے ساتھ منقول ہے:’’اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ حَبِیْبِکَ مُحَمَّد وَخَلِیْلِکَ اِبْرَاھِیْمَ عَلَیْھمَا السَّلَامُ‘‘یہ مکمل دعا جو عام طور پر کتب میں مذکور ہے احادیث سے ثابت نہیں ہے،بلکہ قبولیت کی جو دعائیں قرآن و حدیث میں مذکور ہیں اسی کے پیش نظر علماء نے بطور عاجزی اور مسکنت خدا کے ان محبوب بندوں کے اعمال کےحوالہ سے قبولیت کی امید کے ساتھ اس کا ذکر فرمایا ہے (مستفاد:آپ کے مسائل اور ان کا حل) ۔ تا ہم اگر کوئی شخص مسنون الفاظ “اللھم تقبل من “۔۔۔ہی پر اکتفا کرنا چاہے تو بہتر ہے۔ (۵)ذبح خود کرے،اگر خود نہ کرسکے تو کسی اور کے ذریعہ بھی ذبح کروایاجاسکتا ہے (۶)چھری پہلے ہی سے تیار اور تیز کرلی جائے۔(سنن أبی داؤد،کتاب الضحایا،باب فی الرفق بالذبیحۃ ،ص:۳۸۹) ۔ (۷)اگر چھری تیز کرنے کی ضرورت ہوتو جانور کے سامنے تیز نہ کی جائے۔(۸) حلال پیسوں سےجانورخریداجائے ، جس میں کسی قسم کی کراہت نہ ہو۔(۹)صحیح نیت ہو ،اس کے ذریعہ اللہ کی رضا مطلوب ہو،نام ونمود اور شہرت نہ ہو۔ کیونکہ اللہ پاک کو نہ جانور کا گوشت پہنچتا ہے نہ اس کا خون بلکہ اللہ کے ہاں تقویٰ کی قدر ہے۔ لَنْ یَنَالَ اﷲ لُحُوْمُھَا وَلَادِمَائُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہٗ التَّقْویٰ مِنْکُمْ۔ہاں نیت کا زبان سے تلفظ ضرری نہیں ہے،بلکہ قلبی نیت کافی ہے۔ (۱۰)خوش دلی سے جانور کی قربانی کی جائے۔ (سنن ترمذی:۱۴۷۲) (۱۱)صاحب قربانی خود قربانی کرے، اگرصاحب قربانی جانور ذبح نہ کرے تووقت قربانی اس کی موجودگی بہتر ہے۔(الفتاوی الھندیۃ : ۵؍۳۰۰)کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی صاحبزادی فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا سے ارشاد فرمایا کہ تم اپنی قربانی ذبح ہوتے وقت موجود رہو، کیونکہ خون کا پہلا قطرہ گرنے سے پہلے انسان کی مغفرت ہوجاتی ہے۔( مستدرک علی الصحیحین:۷۶۰۰)ہاں اگر خواتین کی قربانی ہو اور غیر محرم قربانی کررہاہوتو پھر پردہ کرنا چاہیے۔ (۱۲)قربانی کا جانور دن میں ذبح کرنا افضل ہے،اگرچہ رات کوبھی ذبح کیاجاسکتاہے۔(۱۳) افضل دن بقرعید کا دن، پھر گیارہویں اور پھر بارہویں تاریخ ہے۔( الفتاوی الھندیۃ:۵؍۲۹۵) (۱۴)جانور کو کچھ دن پہلے ہی خریدکر رکھاجائے، تاکہ اس سےقربت اور انس ہو،اور ذبح کے وقت اجر و ثواب زیادہ ہو۔اور شعائر اللہ کی تعظیم ہو۔(بدائع الصنائع:کتاب التضحیۃ:۵؍۷۵)۔(۱۵) جانورتخلیقی اعتبار سے کامل ، صحت مند ،فربہ اور خوبصورت ہونا چاہئے۔(۱۶)ایک جانور کو دوسرے کے سامنے ذبح نہ کیاجائے۔ (۱۷)جانور کو ذبح کے لئے لے جاتے وقت گھسیٹا نہ جائے۔اور ہر ایسے عمل سے بچاجائے جس سے جانور کو تکلیف ہو۔ (الدر مع الرد: ۹؍۳۵۸ )۔(۱۸)جانور ذبح کرنے کے بعد ٹھنڈا ہونے سے پہلے اس کا سر یا کھال اتاری نہ جائے ،یہ مکروہ ہے۔البتہ اس طرح ذبح کئے ہوئے جانور کا گوشت حلال ہے اور اس کا کھانا جائز ہے ۔(رد المحتار:۹؍۳۵۸)(۱۹)جانور اگر حاملہ ہے اور اور ولادت کا وقت قریب ہے تو اس کی قربانی نہ کی جائے،یہ مکرووہ ہے،تاہم اس حالت میں قربانی کرنے سےقربانی ادا ہوجائے گی۔ (الکفایۃ فی ذیل فتح القدیر:کتاب الاضحیۃ:۸؍۴۱۷)۔(۲۰)اس جانور کی قربانی افضل ہے،جس کی قیمت زیادہو، اگر گائے وغیرہ کے ساتویں حصہ سے دنبہ یا بکری کی قیمت زیادہ ہے تودنبہ ہی زیادہ اَفضل ہے، اور اگر قیمت برابر ہو تو عمدہ اور زیادہ گوشت والے جانور کو ترجیح ہوگی، اِسی سے یہ بھی مفہوم ہوا کہ اگر کوئی اکیلا شخص بڑا جانور صرف اپنی طرف سے بلاشرکتِ غیرے قربانی کرنا چاہے اور اُس کی قیمت بکری سے زیادہ ہو تو قیمت اور گوشت کے زیادہ ہونے کی وجہ سے وہی بڑا جانور قربان کرنا اُس کے لئے افضل ہوگا۔(مستدرک حاکم: ۷۵۶۱۔الفتاویٰ الہندیۃ: ۵؍۲۹۹)(۲۱)اونٹ کی قربانی میں نحر افضل ہے اور دنبہ،بکری اوربقر وغیرہ میں ذبح افضل ہے۔(فتاویٰ تاتارخانیہ:۱۷؍۳۹۵)
عورت ناپاک اور گونگےآدمی کا ذبیحہ:
عورت یا بچہ یاجنبی یا گونگاآدمی اپنے جانور کی قربانی کریں تو ان کا ذبیحہ درست ہے ۔ (سکب الانہر :۲؍ ۵۰۷)البتہ گونگے کو تسمیہ بتادیاجائے،اور ذبح کے وقت آسمان کی طرف وہ اشارہ کرے،یہی اس کے حق میں تسمیہ کے قائم مقام ہوگا ۔ (مصنف عبد الرزاق: ۸۵۶۶)
ذبح کے وقت ‘‘بسم اللہ’’کے بعد اگرعمل قلیل ہوجائے؟
جانور ذبح کرتے وقت ’’بسم اللہ‘‘پڑھتے ہی فورا ذبح کرنا چاہیے، اگر کچھ سیکنڈ تقدیم ہوجائے ، تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر کوئی بسم اللہ پڑھنے کے بعد کسی سےمختصر بات کرے،یا پانی پئیے،یا چھری تیز کرے، یا کسی عمل قلیل میں مشغول ہوجائےاور اس کے بعد ذبح کرے تب بھی ذبیحہ حلال ہے اور اس کی قربانی درست ہوگی۔(ہندیہ:۵؍۲۸۸) نیزذبح کے وقت صرف ’’ بسم اللہ ‘‘ کہنا بھی کافی ہے،البتہ ’’ بسم اللہ اللہ اکبر‘‘ دونوں کہنا سنت ہے(ردالمحتار: ۹/۳۶۴، کتاب الذبائح)
تسمیہ کے بعد چھری بدلنے کا حکم:
ایسے ہی اگرجانور کو ذبح کر نے کے لئےلٹادیاگیا اور ذابح نے چھری لی اور بسم اللہ پڑھی،لیکن اس چھری سے ذبح کرنے کے بجائے کسی دوسری چھری سےبغیربسم اللہ کے جانور ذبح کیا تو وہ جانور حلال ہوگا،اوراس کی قربانی درست ہوگی،اور پہلا بسم اللہ ہی اس کے لئے کافی ہوجائے گا۔(تبیین الحقائق:کتاب الذبائح،۶؍۴۵۳)
تسمیہ کے بعد جانور بدلنے کا حکم:
البتہ اگر جانور کو لٹانے اور اس پر بسم اللہ پڑھنے کے بعداس جانور کو چھوڑ کر دوسرے جانور کو ذبح کیا تو وہ جانور حلال نہیں ہوگا،اور نہ قربانی درست ہوگی،کیونکہ اصلا جانور پر تسمیہ کا ہونا ضروری ہے،اور یہاں اگرچہ پہلے جانور پر تسمیہ ہوا ہےلیکن دوسرے والے جانور پر تسمیہ نہیں ہوا اس لئے دوسراجانور نہ حلال ہوگا اور نہ اس کی قربانی درست ہوگی۔(حوالۂ سابق)
ذبح میں معاون اور شریک کےلئے بسم اللہ کا مسئلہ:
بعض لوگ چھری چلانے والے کے ساتھ ہوتے ہیں،کبھی قصائی ان کے ساتھ ہوتا ہے،جو تھوڑی سی اونچ نیچ دیکھ کر خود ہی چھری چلادیتا ہے، ایسے معاون اور شریکوں پربھی’’ بسم اللہ ‘‘کہنا واجب ہے،اگر بسم اللہ کے بغیر انہوں نے چھری چلادی تو جانور حرام ہوجائے گا، اس کا گوشت کھانا جائز نہیں ہوگا، البتہ ہاتھ پیر اور منہ پکڑنے والا محض معاون ہوتاہے، لہٰذا اس پر’’ بسم اللہ‘‘ کہنا واجب نہیں ہے۔ (الہندیۃ: ۵؍۳۰۴)
دورانِ ذبح جانور کھڑا ہوجائے تو دوبارہ بسم اللہ کا حکم:
اگر جانور کو ذبح کرنے کے لیے زمین پر لٹادیا گیا، اور ذبح کرنے والے نے چھری لے کر ’’ بسم اللہ ، اللہ اکبر‘‘ بھی پڑھ لیا، اور اچانک جانور چھوٹ کر کھڑا ہوگیا، اور بھاگ گیا، اور پھر دوبارہ اُس کو پکڑکر لٹاکر ذبح کیا جارہا ہے، تو چاہے ذابح وہی شخص ہو یا کوئی دوسراشخص ہو، اُس کو از سر نو بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے، اور اگر ذبح شروع کرنے کے بعد جانور بھاگا نہیں، بلکہ صرف کھڑا ہوا تھا پھر وہی ذابح اُس کو ذبح کرے، تو اُس کے لئے از سر نو بسم اللہ پڑھنا ضروری نہیں؛ لیکن اگر کوئی دوسرا شخص ذبح کرے گا تو اُس کے لئے بسم اللہ پڑھنا ضروری ہوگا۔(الفتاویٰ الہندیۃ ۵؍۲۸۹)
کھال،گوشت اور جانور کی اشیاء کا مصرف:
جانور ذبح کرنےکے بعد بہتر یہ ہےکہ اس کے گوشت کے تین حصے کئےجائیں، (۱)ایک حصہ غرباء میں تقسیم کیاجائے۔(۲)ایک حصہ رشتہ دار اور دوست و احباب میں تقسیم کیاجائے۔(۳) ایک حصہ اپنے لئے رکھاجائے۔(الفتاوی الھندیۃ: ۵؍۳۰۰)قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ تک بھی رکھ سکتا ہے ۔ (سنن أبی داؤد،کتاب الضحایا:۳۸۶)
شرکاء کے درمیان گوشت کی تقسیم:
اگر کسی بڑے جانور میں چند لوگ شریک ہوں، توقربانی کا گوشت اندازہ سے تقسیم کرنا جائز نہیں ہے، وزن کرکے برابر تقسیم کرنا ضروری ہے، اگر کسی حصہ میں گوشت کی کمی بیشی ہوگی تو سود ہوجائے گا، اور سود لینا دینا ، کھانا اور کھلانا سب حرام ہے ۔ البتہ اگر کسی شریک نے سر اور پائیں لے لیے ، تو پھر اس کے حصے میں کم گوشت دینا جائز ہوگا۔
قربانی کا گوشت یا دیگر اشیاء کا بیچنا:
قربانی کےجانور کے گوشت یا اس کی کسی چیز کو بیچنا جائز نہیں ہے۔اگر کسی نے بیچا ہے تو اس کی قیمت کا صدقہ کرنا ضروری ہےاور اگر ذبح سے پہلے ہی کسی کی نیت بیچنے کی تھی تو وہ قربانی ہی درست نہیں ہوگی،اگر بڑے جانور میں اس طرح کی نیت کے ساتھ کسی نے قربانی کی تو کسی کی قربانی صحیح نہیں ہوگی۔(صحیح البخاري : کتاب المناسک: ۱؍۲۳۲ ۔ رد المحتار ۹؍۳۹۸ ۔سنن بیہقی:کتاب الضحایا: ۹؍۴۹۵)
قربانی کا گوشت یا کھال یا ہڈی قصاب یا کسی عمل کی اجرت میں دینا:
قربانی کے جانور کے کسی جزء مثلاً کھال یا گوشت یا ہڈی وغیرہ کو قصاب کی یا کسی کام کی اجرت میں دینایا مسجد کے امام یا مدرسین کوبطور تنخواہ دینایا قیمت میں وضع کرنا جائز نہیں، قصاب کی اجرت الگ رقم سے دینا ضروری ہے۔قربانی کے جانور کے کسی جزء سے نہیں دینا چاہیے۔لیکن اگر کسی نے اس طرح دیا ہےتو جس قدر دیا ہے اس کی قیمت صدقہ کرنا واجب ہے، ہاں اگر اِن لوگوں کو بغیر حق الخدمت کے قربانی کا گوشت وغیرہ دیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔(رد المحتار:۹؍۳۹۸ ۔ اعلاء السنن : ۵۶۰۰)
قربانی کی کھال سے خود فائدہ اٹھانا:
جانور ذبح کرنے کے بعدقربانی کی کھال سے خود فائدہ اٹھانا یا کسی کو دے دینا دونوں جائز ہے، خواہ وہ شخص جس کو یہ کھال دی جارہی ہے مالدار ہو یا فقیر،ہاشمی ہو یا غیر ہاشمی،اپنے اصول و فروع ہوں یا اجنبی،نیزاس میں تملیک بھی واجب نہیں ہے ،اسی لیے خود اپنے لیے اس کا مصلیٰ اورڈول وغیرہ بنا لینا یا کسی اورکام میں لانا جائز ہے۔( الدر مع الرد: ۹؍۳۹۸)
کھال کا مصرف:
قربانی کی کھال یا اس کی رقم مسجد کی مرمت یا امام ، موذن ، مدرس یا خادم کی تنخواہ یا کسی جماعت اور ادارے کے پروگرام مثلاً کتابوں اور رسائل کی طباعت میں نہیں دی جاسکتی۔ نہ تو اس سے مدارس کی تعمیر ہوسکتی ہے او رنہ شفاخانوں یا دیگر رفاہی اداروں کی۔ کیونکہ کھالوں کی رقم مستحقین کی ملک میں دینا ضروری ہے۔ البتہ ایسے ادارے اور انجمن کو دینا درست ہے جوواقعی مستحقین زکوٰۃ و صدقات پر رقم خرچ کرتے ہوں۔(رد المحتار:۶؍۳۲۸)
قربانی کے جانور کا دودھ اور اون کے استعمال کا حکم:
اگر کسی شخص نے قربانی کی نیت سے جانور خریدا، تو خریدنے کے بعد اس جانور سے دوودھ نکالنا یا اس کا اون نکالنااور اس کا استعمال کرنا یا فروخت کرناجائز نہیں ہے، اور اگر کسی شخص نے دودھ نکال لیا، تو دودھ اور اون یا اس کی قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہوگا ۔تاہم اس کے باوجود قربانی درست ہوجائے گی ۔(الفتاوی الہندیہ:۵؍۳۰۰ ،و۳۰۱)ہاں اگر جانور کے چارہ وغیرہ کےلئے رقم صرف کرنی پڑتی ہویا جانورپالتو ہو یا جانور خریدا لیکن خریدتے وقت قربانی کی نیت نہیں تھی تو پھر ان چیزوں سے فائدہ اٹھایاجاسکتا ہے۔
وصیت اور نذر کی قربانی کا مصرف:
واجب قربانی یعنی نذر یا کسی کی وصیت کی وجہ سے کی جانے والی قربانی کا گوشت مستحقین میں صدقہ کرنا ضروری ہے۔ صاحب نذر خوداور اس کے اصول و فروغ اور غنی نہیں کھاسکتے۔ یہی حکم وصیت کا بھی ہے۔ باقی تمام قربانی اور صاحب نصاب کی واجب والی قربانی کا گوشت خود اور تمام رشتہ دار، غنی و فقیر سب کھا سکتے ہیں۔( رد المحتار:۶؍۳۲۷)
حلال جانور کی ممنوعہ چیزیں:
جانور کی کچھ چیزیں ایسی ہیں کہ جانور حلال ہونے کے باوجود ان کا کھانا ممنوع ہے ، وہ یہ ہیں: (۱)دمِ مسفوح (بہتا ہوا خون)۔(۲) نر اور مادہ کی پیشاب کی جگہ۔(۳) خصیے… (فوطے؍کپورے)۔(۴) پاخانہ کی جگہ۔(۵) غُدود…(سخت گوشت؍خون جم کر گُٹھلی کی شکل میں ہوجانا)۔(۶) مَثانہ …(پیشاب کی تھیلی)۔(۷) پِتّہ۔ (۸) حرام مغز۔نوٹ: مذکورہ بالا سات چیزیں مکروہِ تحریمی ہیں، اور ’حرام مغز‘ حرام ہے، ان کا کھانا اور کھلانا ناجائز اور گناہ ہے، اگر ان میں سے کسی چیز کاسالن پکالیا گیا، تو وہ سالن بھی ناپاک ہوجائے گا۔ (مصنف عبدالرزاق :۴۰۹،سنن الکبری للبیہقی:۱۰؍۷۔ بدائع الصنائع : کتاب الذبائح والصیود،۶؍۲۷۲)قربانی کے جانور کی اوجھڑی کھانا درست ہے، کیوں کہ اوجھڑی جانور کے اُن سات اعضاء میں داخل نہیں ، جن کا کھانا جائز نہیں ہے۔
جانوروں میں عیب اور ان کے احکام:
قربانی کے صحیح ہونے کی ایک اہم شرط جانوروں کا عیوب سے صحیح سالم ہونا ہے،اورکچھ عیوب کا احادیث میں آپﷺ نے ذکرفرمایا ہے، سنن ابی داؤد میں روایت ہے: ”اَلْعَرْجَاء الْبَیِّنُ ظِلْعُھَا “لنگڑاجانور جسکا لنگڑاپن بہت کھلاہواہو کہ اس کی وجہ سے اس کو چلنا بھی مشکل ہو،وَالْعَوْرَاء الْبَیِّنُ عَوَرُھَاجس کی ایک آنکھ خراب ہوگئی ہو اور وہ خرابی بالکل نمایاں ہو”وَالْمَرِیْضَۃُ الْبَیِّنُ مَرَضُھَا“وہ جوبہت بیمارہو، ”وَالْعَجْفَاء“ الَّتِی لاَتُنْقِی وہ جوایسا کمزورولاغرہوکہ اس کی ہڈیوں میں گودابھی نہ رہا ہو،تو ایسے جانوروں کی قربانی درست نہیں ہے۔ (سنن ابی داود:۲۸۰۴) چونکہ قربانی اللہ کے دربار میں نذرانہ پیش کرنا ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ اپنی حیثیت کے بقدراچھے جانو ر کا انتخاب کیا جائے۔اس پس منظر میں فقہائے کرام نے جانوروں کے عیوب کو مفصل بیان فرمایا ہے،ان میں سے چند جزئیات جو عمومی طور پر پیش آتے رہتے ہیں نقل کئے جارہے ہیں۔
جانور خریدنے کے بعد عیب دارہوجائے؟
بعض دفعہ یہ صورت پیش آتی ہے کہ جانور خریدنے کے وقت تو صحیح سالم ہوتا ہے لیکن بعد میں اس میں ایساعیب پیداہوجاتا ہے جو قربانی کے لئے مانع ہوتا ہے،،اس صورت میں حکم یہ ہےکہ مال دار پر اُس جانورکے بجائے دوسرے صحیح سالم جانور کی قربانی لازم ہوتی ہے، اور فقیر کے لئے یہ حکم ہے کہ وہ عیب دار جانور ہی کی قربانی کردے، دوسرے جانور کی قربانی اس پر لازم نہیں ہے۔ اور اس عیب دار کو خواہ بیچ ڈالے خواہ ذبح کرکے کھالے اسے اختیار ہے۔(الدر مع الرد:کتاب الاضحیۃ: ۹؍۴۷۱ ۔ الفتاوی التاتارخانیۃ :۱۷؍۴۳۲ )
جانور کو گراتے یا ذبح کے لئےلےجاتےوقت اس میں عیب پیدا ہوجائے؟
کبھی یہ صورت یہ پیش آتی ہےکہ جانور کو ذبح کرنے کے لیے لے جاتے وقت یاگراتے وقت اس میں کوئی عیب پیدا ہوجاتا ہے،کبھی ٹانگ ٹوٹ جاتی ہے تو کبھی آنکھ پھوٹ جاتی ہے،یا کوئی اور عیب پیداہوجاتا ہے تو اس صورت میں حکم یہ ہےکہ ایسے جانور کی قربانی درست ہے،اس حالت میں عیب کے پیداہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔(الفتاوی الہندیۃ:۵؍۱۹۹)
لنگ جانور کی قربانی:
جانور میں اگر لنگڑاپن ہو اور وہ اتنا زیادہ ہوکہ وہ چل ہی نہ سکتاہو تو اُس کی قربانی جائز نہیں ہے۔ہاں اگروہ اتنا کم ہے کہ جانورایک جگہ سے دوسری جگہ خود چل کر جاسکتا ہے تو اُس کی قربانی درست ہوگی۔ (سنن النسائي، کتاب الضحایا: ۴۳۷۸ ۔ الفتاویٰ الہندیۃ ۵؍۲۹۷)اسی طرح اگر جانور ایک پاؤں سے لنگڑا ہے، یعنی تین پاؤں پر چلتا ہے، چوتھے پاؤں کا بالکل سہارا نہیں لیتا ہے تو ایسے جانور کی قربانی درست نہیں ہے۔اور اگر چوتھے پاؤں کا کچھ سہارا لیتا ہے اور چلنے میں اس کو زمین پر رکھ کر سہارا لیتا ہواچلتا ہے تو اس کی قربانی درست ہے۔( رد المحتار:۶؍۳۲۳)
کان کٹے ہوئےجانور کی قربانی:
اگر جانورکے کان چھوٹے ہوں،یا درست ہوں لیکن کان کو چیر کر دو حصے کر رکھے ہوں تواس کی قربانی درست ہے۔اگر جانور کا کان تھوڑا بہت کٹا ہے، تو اُس کی قربانی درست ہے، لیکن اگر کان کا اکثر حصہ یعنی کان کا ایک تہائی یا اس سے زیادہ کٹ گیا ہو یا پیدائشی کان ہی نہ ہوتو ایسے جانور کی قربانی درست نہیں ہے۔ (الفتاویٰ الہندیہ:۵؍۲۹۷۔ رد المحتار:۶؍۳۲۳-۳۲۴)
بے سینگ یا کٹے ہوئے سینگ والےجانور کی قربانی:
جس جانور کے پیدائشی طور پر سینگ نہ ہوں، ، یا سینگ تو تھے مگر ٹوٹ گئے، یا بچپن میں ہی اُس کے سینگ کی جگہ آگ سے جلادی گئی ہو، جس کی وجہ سے آگے سینگ نہ نکل سکے ہوں، تو اُس کی قربانی درست ہے۔البتہ اگر سینگ بالکل جڑ سے ٹوٹ گئے ہوں تو قربانی درست نہیں ہے ۔(رد المحتار:کتاب الاضحیۃ:۹؍۳۹۱)
دم بریدہ جانور کی قربانی:
جس جانور کی پیدائشی طور پر دُم ہی نہ ہو، تو امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اُس کی قربانی درست ہے، جب کہ امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک اُس کی قربانی جائز نہیں ہے، اِس لیے احتیاط اِسی میں ہے کہ اُس کی قربانی نہ کی جائے۔(رد المحتار:کتاب الاضحیۃ:۹؍۳۹۳ )اگر جانور کی دم یا ناک کا اکثر حصہ کٹا ہو،یعنی ایک تہائی یا اس سے زیادہ کٹ گیا ہو تو ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں ہےاور اگر معمولی حصہ کٹا ہے، تو اُس کی قربانی درست ہے۔( رد المحتار: ۶؍۳۲۳)
اندھے جانور کی قربانی:
اگر کوئی جانور پوری طرح ایک یا دونوں آنکھوں سے اندھا ہے، تواس کی قربانی درست نہیں ہے، کیوں کہ اندھا ہونا یہ اُن عیوب میں سے ہے، جن کے پائے جانے پر قربانی جائز نہیں ہوتی ہے۔(المحیط البرہاني:۶؍۴۷۸)ایسے ہی جانور کی آنکھ میں کچھ خرابی ہو اور کچھ اچھی ہوتو اگرآنکھ کی ایک تہائی یا اس سے زائد روشنی جاتی رہی ہوتو اس کی قربانی درست نہیں ہے۔(رد المحتار:۶؍۳۲۳)
خارش زدہ جانور کی قربانی مسئلہ:
جس جانور کو کھجلی کی بیماری ہے، اور اس کا اثر گوشت تک نہ پہنچا ہو، تو اس کی قربانی درست ہے، اور اگر بیماری اور زخم کا اثر گوشت تک پہنچا ہو ، تو اس کی قربانی صحیح نہیں ہے ۔(رد المحتار:کتاب الاضحیۃ ۹؍۳۹۱)
بے دودھ تھنوں والے جانور کی قربانی:
اگر اونٹنی ، گائے اور بھینس کی دو تھنوں سے دودھ نہ اترتا ہو، یابھیڑ ، بکری ، دنبی وغیرہ کے ایک تھن سے دودھ نہ اتر تا ہو، تو اس کی قربانی درست نہیں ہے، کیوں کہ بڑے جانور میں دو اورچھوٹےجانور میں ایک تھن سے دودھ نہ اتر نا اور عیب دار جانور کی قربانی کرنا درست نہیں ہے ۔(رد المحتار:کتاب الاضحیۃ:۹؍۳۹۳ )
خصی بکرے اور مینڈھے کی قربانی:
بعض لوگ خصی بکرے ، مینڈھے اور بیل کی قربانی کو ناجائز سمجھتے ہیں ، جب کہ خصی جانور کی قربانی بلا کراہت درست ہے، چاہے خصیتین کاٹ کر نکال دیئے جائیں یا دباکر، دونوں صورتوں میں قربانی صحیح ہے، کیوں کہ یہ عیب گوشت کی عمدگی کیلئے قصداً کیا جاتا ہے، اس لئے اس میں کوئی کراہت نہیں ہے ۔بلکہ ایسے جانور کی قربانی حدیث سے ثابت ہے۔خود خصی جانوروں کی قربانی آپ ﷺ نے بھی کی ہے۔اور یہی ائمہ اربعہ کا مذہب ہے۔(ابوداؤد:۲؍۳۰ ۔ ابن ماجہ: ۲۲۵) ہاں جانور کی خصی کرنا ممنوع ہے۔اس سے آپ نے منع فرمایا ہے۔ (مشکوٰۃ : باب الأضحیۃ :۱۲۸)
دانت گھسے ہوئے جانور کی قربانی:
جس جانور کی عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کے سارے دانت گرگئے ہوں، یا گھِس گھِس کر مسوڑھوں سے جا ملے ہوں، لیکن وہ گھاس کھانے پر قادر ہے، تو اس کی قربانی درست ہے، اور اگر گھاس کھانے پر قادر نہیں ہے، تو اس کی قربانی جائز نہیں ہے۔(الفتاوی الہندیۃ:۵؍۲۹۸ ۔ الموسوعۃ الفقہیۃ ‘‘ : ۵؍۸۶)
قربانی کا جانور بدلنا:
اس میں مختلف روایات ہیں،احوط قول یہ ہےکہ مالدار اگر جانور بدلے تو اس کو گنجائش ہے،ہاں اگر دوسرے جانور کی قیمت کم ہوتو پہلے جانور سے جتنی قیمت کم ہو اتنی کی قیمت صدقہ کردینا چاہیےاور غریب کے لئے احوط قول یہ ہےکہ وہ جس جانور کوخریدا ہے،اسی کی قربانی کرے،اس کو نہ بدلے۔ (رد المحتار:کتاب الاضحیہ:۵؍۲۸۴)
بغیر اجازت قربانی کرنے کا حکم:
کسی آدمی کی جانب سےاس کی اجازت کے بغیر اگر کسی نے واجب قربانی کی ہے تو اس شخص کی طرف سے قربانی ادا نہ ہوگی ۔اس کی طرف سےصراحۃیا دلالۃ رضامندی کا ہونا ضروری ہے۔ ،اور اگر بڑے جانور میں اس طرح قربانی کی گئی تو سب کی قربانی کالعدم ہوگی۔ (امداد المفتین:۹۶۰۔شامي : کتاب الأضحیۃ ۶؍۳۳۰ )
بانجھ جانور کی قربانی:
بانجھ جانور کی قربانی درست ہے، کیوں کہ اس پر ممانعت کا حکم وارد نہیں ہے، اور بانجھ ہونا قربانی کے لیے عیب نہیں ہے، بلکہ بانجھ جانور اکثر وبیشتر لحیم وشحیم (خوب موٹا تازہ) ہوتا ہے، اور گوشت بھی عمدہ ہوتا ہے، اس لیے اس کی قربانی جائز ہے۔( الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : کتاب الاضحیۃ: ۵؍۲۹۷ )
کٹی ہوئی زبان والے جانور کی قربانی :
جس جانور کی زبان کٹی ہوئی ہو، اگر وہ بکری ہے تواس کی قربانی جائز ہے،کیوں کہ وہ چارہ دانت سے کھاتی ہے، اور اگر وہ جانور گائے ہے تواس کی قربانی جائز نہیں، کیوں کہ وہ چارہ زبان سے کھاتی ہے۔ہاں اگر بکری میں بھی زبان کے کٹے ہونے سے چارہ کھانے میں دشواری ہوتو اس کی قربانی درست نہیں ہے۔( رد المحتار :کتاب الاضحیۃ: ۹؍۴۷۰ ۔الفتاوی الہندیۃ : ۵؍۲۹۸)
دیوانہ جانور کی قربانی:
جانور اگردیوانہ ہویاپاگل ہو تو اس کا دیوانہ پن قربانی سے مانع نہیں جب کہ وہ پاگل جانور چرتا ہو،اگرنہ چرتا ہوتو اس کی قربانی درست نہیں۔ (درمختار:کتاب الحظر والاباحہ:۵؍۲۱۷)
خُنثیٰ مشکل جانور کی قربانی:
جس جا نور کے نر یا ما دہ ہو نے کی تمیز مشکل ہو اور دو نوں کی علا ما ت مو جو د ہو ں تو چو نکہ ایسے جا نور کے گوشت کے اچھے اثر ات مر تب نہیں ہو تے اس لیے ایسے جا نور کی قر با نی درست نہیں۔(ھندیۃ: ۵ ؍۲۹۹ا)
کمزورولاغر جانور کی قربانی:
قربانی کا جانور خوب موٹا تازہ ہونا چاہئے۔ اگر جانور اس قدر کمزور ہے کہ ہڈیوں میں گودا بالکل نہ رہا ہو تو ایسے جانور کی قربانی جائز نہیں ہے البتہ اگر اتنا دبلا نہیں ہے،صرف کمز ور ہے، باقاعدہ چل پھر سکتا ہے تو اس کی قربانی درست ہے۔( سنن النسائي:۴۳۷۸۔الفتاوی الھندیۃ -۵؍۲۹۸)
حاملہ جانور سے ذبح کے بعداگر بچہ نکلے؟
:اولاتوحاملہ جانور کی قر با نی کر ا ہت سے خا لی نہیں اگر جانور کو ذبح کرنے کے بعداس کے پیٹ سے مردہ بچہ نکلے تو اس کو استعما ل میں لانا جائز نہیں ہے ۔ اور اگر زندہ بچہ نکل آئے ، تو شرعاً اسے بھی ذبح کرنا ضروری ہے،اگر ذبح نہ کیاجائے اور ایام قربانی گزر جائیں تو زندہ جانور ہی کو صدقہ کردیا جائے،اگر اس کو ذبح کرکے کھالیاجائے تو پھر اتنی قیمت صدقہ کردی جائے۔ لیکن اگر کسی شخص نے اس بچہ کو ذبح کرنے کے بجائے پال لیا، اور اس کے بڑے ہونے پر، اپنے اوپر واجب قربانی میں اس کو ذبح کیا، تو اس کی واجب قربانی ادا نہ ہوگی، اس کا پورا گوشت صدقہ کرنا لازم ہوگا، اور اس شخص پر اس کی جگہ دوسری قربانی بھی واجب ہوگی۔( رد المحتار۹؍۳۹۱)
قربانی کا جانور مرجائے یا گم ہوجائے یا چوری ہوجائےیا بھاگ جائے؟
اگر کوئی شخص قربانی کے لیے جانور خریدے، اور قربانی سے پہلے جانور مرجائے، یا گم ہوجائے یا چوری ہوجائے،یا بھاگ جائے تواگر جانور خریدنے والا مالدار ہے، تو اس پر دوسرا جانور خریدکر اس کی قربانی کرنا لازم ہوگا، اور اگر وہ غریب ہے تو اس کے ذمہ دوسرا جانور خرید کر قربانی کرنا لازم نہیں ہوگا۔(مجمع الانہر:کتاب الاضحیۃ۴؍۱۷۳ )
گم شدہ یا چوری کیا ہو جانور دوبارہ مل جائے؟
اگر کسی غریب شخص نے قربانی کی نیت سے جانور خریدا اور وہ قربانی سے پہلے گم ہوگیا،تو اس پر دوسرے جانور کی قربانی لازم نہیں ہے،لیکن پھر مسئلہ یہ ہے کہ اگر وہ پہلا جانور گم ہونے کے بعد نیا جانور خرید لے تو نئے جانور کی قربانی بھی اُس پر واجب ہوجائے گی، اَب اتفاق سے پہلا جانور بھی مل گیا تو غریب آدمی پر ان دونوں جانور وں کی قربانی ضروری ہے، کیونکہ غریب آدمی کے جانور خریدنے سے قربانی کا لزوم اس کے جانور کے ساتھ متعلق ہوجاتا ہے،اس لئے دونوں جانوروں کی قربانی اس پر ضروری ہوتی ہے۔ اِس کے برخلاف امیر اور صاحبِ نصاب شخص پر قربانی کا وجوب وسعت مالی کی بنیاد پر ہوتا ہے نہ کہ کسی جانور کی خریداری پر، اِس لئے بہر حال اس پر ایک حصہ کی قربانی واجب رہتی ہے، خواہ جانور گم ہو جائے یا گم ہوکر دوبارہ مل جائے۔ (الفتاویٰ الہندیۃ: ۵؍۲۹۴)
اسی اصول پر متفرع توجہ طلب ایک مسئلہ یہ ہے کہ ا گر کسی غریب نے قربانی کا بڑاجانور اس نیت سے خریدا کہ بعد میں کوئی اور آدمی مل گیاتو اس میں شریک کرلوں گا او ربعد میں کسی اور کو اس میں شریک کیا تو قربانی درست ہے اور اگر خریدتے وقت کسی اور کو شریک کرنے کی نیت نہ تھی بلکہ پورا جانور اپنی طرف سے قربانی کرنے کی نیت تھی تو وہ بعد میں کسی اور کوشریک کرنا چاہے تو نہیں کرسکتا،ہاں اگر مالدار ہے تو شریک کرسکتا ہے۔ البتہ بہتر نہیں ہے۔(رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الأضحیۃ:۶؍۳۱۷)
عید الاضحیٰ کےآداب ومستحبات:
(۱)عیدین کے روز جلدی جاگنا۔(۲)شرع کےموافق اپنی آرائش کرنا۔ (۳) مسواک کرنا۔ (۴)غسل کرنا۔ (۵)جو کپڑے آدمی کے پاس ہیں ان میں سے اچھے کپڑے پہننا۔(۶)خوشبو لگانا۔(۷) عیدگاہ جانے سے قبل کچھ نہ کھانا۔(۸)عید کے روز نماز سے واپسی کے بعد اگر قربانی کی ہوتوقربانی کے گوشت میں سے کھانا۔ (۹)فرحت و خوشی کا اظہار کرنا۔اور خرچ کرنے میں حسب استطاعت اہل وعیال پر وسعت کرنا۔ (۱۰)حسبِ طاقت صدقہ و خیرات میں کثرت کرنا۔ (۱۱)عید گاہ کی طرف جلدی جانا۔(۱۲)عید گاہ پیدل جانا۔(۱۳)عید گاہ کی طرف وقار اور اطمینان کے ساتھ جانا اور جن چیزوں کا دیکھنا جائز نہیں ہے ان سے آنکھیں نیچی رکھنا۔(۱۴) عید گاہ جاتےوقت راستہ میں بلند آواز سے تکبیر کہنا اور جب عید گاہ میں پہونچ جائیں تو تکبیرات کا بند کردینا۔ ۔تکبیر یہ ہے:اَللہُ اَکْبَرْ اَللہُ اَکْبَرْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرْ اَللہُ اَکْبَرْ وَلِلّٰہِ الْحَمْدْ۔ (۱۵)دوسرے راستہ سے واپس ہونا۔(۱۶)آپس میں مبارک باد دینا۔(۱۷)عید کی نماز شہر سے باہر عید گاہ میں پڑھنا۔(۱۸)عید گاہ میں نماز عید کے علاوہ کوئی دوسری نماز ادا نہ کرنا۔البتہ اگر کسی نےفجر کی نماز نہ پڑھی ہوتو عید گاہ میں اس کی قضا کرسکتا ہے۔(۱۹)عید الاضحیٰ کی نماز جلدی اداکرنا۔(مستفاد از تذکیرات جمعہ:ج۱؍۲۱۸و۲۱۹)
عید کی نماز کا طریقہ:
نمازِعید کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ اولاً نیت کی جائے،اس طور پر کہ میں قبلہ رو ہوکر اس امام کی اقتداء میں دو رکعت واجب نماز عیدادا کررہا ہوں، چھ زائد تکبیروں کے ساتھ،نیت دل سے کافی ہے،زبان سے ضروری نہیں۔اس کے بعد تکبیرِ تحریمہ کہہ کر ہاتھ باندھ لیں، ثنا پڑھیں، اس کے بعد دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے معمولی فصل سے تین مرتبہ تکبیر کہیں، پہلی دو تکبیروں کے بعد ہاتھ چھوڑیں، اور تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ باندھیں ،اس کے بعد سورہ فاتحہ پڑھیں، پھر رکوع اورسجدہ کرکے رکعت مکمل کرلیں۔ دوسری رکعت میں اولاً سورہ فاتحہ اور کوئی دوسری سورت پڑھیں،اس کے بعد رکوع میں نہ جائیں بلکہ تین مرتبہ ہاتھ اٹھاکر تین تکبیریں کہیں اور درمیان میں ہاتھ نہ باندھیں، اس کے بعد بغیر ہاتھ اٹھائے چوتھی رکوع کی تکبیر کہہ کر رکوع میں چلے جائیں اور بقیہ نماز حسبِ معمول پوری کریں۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۲؍۶۰۴)
عید کی نماز میں زائد چھ تکبیرات کا ثبوت:
عیدین کی زائدتکبیرات کے متعلق روایات مرفوعاً وموقوفاً مختلف اورمتعدد ہیں، اسی وجہ سے اسمیں دس اقوال ہیں جن کو صاحب ِنیل۱لاوطار اورصاحب بذل المجہود نے تفصیل سے بیان کیاہے مجتہد ومحقق علماء نے ان روایات میں سے اپنے اصول ترجیح کے تحت کسی روایت کواختیار فرمالیا ہے،مندرجہ بالا عبارت میں عید کی نماز اور تکبیرات کا جو ذکر کیا گیا ہے،اس کے حوالے مندرجہ ذیل ہیں:
”عن القاسم…صَلّٰی بِنَا النَّبِیُّﷺیَومَ عِیدٍ فَکَبَّرَ أربَعًا وَ أربَعاً ثُمَّ اَقبَلَ عَلَینَا بَوِجھِہٖ حِینَ انصَرَفَ فَقَالَ: لَا تَنسَوا کَتَکبِیرِ الجَنَائزِ وَ أشَارَ بِأصَابِعِہٖ، وَقَبَضَ إبھَامَہٗ“(رواہ الإمام الطحاوي ۴؍ ۳۴۵، إعلاء السنن ۸؍۱۲۸) اسکے علاوہ حضرت عبد اللہ ابن مسعود،حضرت ابو مسعود،ابو موسیٰ اشعری،حضرت حذیفہ بن یمان،عبد اللہ بن قیس،حسن بصری،سعید ابن مسیب وغیرہ صحابہ اور تابعین کے آثار بھی اسی طرح منقول ہیں۔(مصنف ابن ابی شیبۃ : ۴؍۲۱۳-۲۲۹ ا)حضرت عبد اللہ ابن مسعود سے یہ اثر اور عمل منقول ہے:”هُوَ يُكَبِّرُ تَكْبِيرَةً , وَيَفْتَتِحُ بِهَا الصَّلَاةَ ثُمَّ يُكَبِّرُ بَعْدَهَا ثَلَاثًا , ثُمَّ يَقْرَأُ ثُمَّ يُكَبِّرُ تَكْبِيرَةً يَرْكَعُ بِهَا , ثُمَّ يَسْجُدُ , ثُمَّ يَقُومُ فَيَقْرَأُ , ثُمَّ يُكَبِّرُ ثَلَاثًا , ثُمَّ يُكَبِّرُ تَكْبِيرَةً , يَرْكَعُ بِهَا“(شرح معانی الآثار:۷۲۸۴۔المعجم الکبیر للطبراني: ۹۵۱۳، مجمع الزوائد ۲؍۲۰۴)وقد روي عن غیر واحد من الصحابۃ نحو ھٰذا وھٰذا أثر صحیح۔(مرقاۃ: ؍۲۵۴-۲۵۵)
عیدین کی تکبیرات اگر چھوٹ جائیں:
عیدین کی نماز میں ایک اہم مسئلہ تکبیرات واجبہ سے متعلق ہے،یہ تکبیرات کبھی امام سے فوت ہوتی ہیں تو کبھی مقتدی سے، اس لئے مختصر طور پر یہ ذہن نشین ہونا چاہیے کہ اگر امام قرأت سے پہلے تکبیرات زوائد کو بھول جائے،اور رکوع میں جانے سے قبل اسے یاد آجائے، تو اسی وقت اس کوتکبیرات کہہ لینی چاہیے، اور اگر وہ رکوع میں چلاجائے تو اس میں علماء کی دو رائیں ہیں:ایک یہ کہ رکوع ہی میں ان زائد تکبیرات کو کہہ لے، اور دوسری یہ کہ ان تکبیرات کو کہنے کی ضرورت نہیں رہی،یوں ہی نماز پوری کرلی جائے۔(فتاویٰ ہندیہ: ۱؍۱۵۱۔در مختار مع شامی:۲؍۱۷۴)اور ان تکبیرات کے فوت ہونے سے اصلا سجدۂ سہو واجب ہوتا ہے،اور سجدۂ سہو سے اس کی تلافی ہوجاتی ہے،لیکن فقہاء نے جمعہ اور عیدین میں مجمع کثیر کی وجہ سے سجدۂ سہو سے لوگوں میں فتنہ کے پیش نظر سجدۂ سے منع کیا ہے۔. (الفتاوی الھندیۃ:۱؍۱۲۸)
کبھی مقتدی سے تکبیرات یا رکعت چھوٹ جاتی ہےتواس صورت میں مسئلہ یہ ہےکہ اگر امام تکبیرات سے فارغ ہوچکا ہو، خواہ قرأت شروع کی ہو یا نہ کی ہو، بعد میں آنے والے مقتدی کو چاہیے کہ تکبیرِ تحریمہ کے بعد زائد تکبیرات کہہ لے اور اگر امام رُکوع میں جاچکا ہے اور یہ گمان ہو کہ تکبیرات کہہ کر امام کے ساتھ رُکوع میں شامل ہوسکتے ہیں تو تکبیرِ تحریمہ کے بعد کھڑے کھڑے تین تکیرات کہہ کر رُکوع میں جائے، اور اگر یہ خیال ہو کہ اتنے عرصے میں امام رُکوع سے اُٹھ جائے گا تو تکبیرِ تحریمہ کہہ کر رُکوع میں چلا جائے، اور رُکوع میں رُکوع کی تسبیحات کے بجائے تکبیرات کہہ لے، ہاتھ اُٹھائے بغیر، اور اگر اس کی تکبیرات پوری نہیں ہوئی تھیں کہ امام رُکوع سے اُٹھ گیا تو تکبیرات چھوڑ دے اور امام کی پیروی کرے، بقیہ تکبیرات اس سےساقط ہوجائیں گی۔ اور اگر رکعت نکل گئی تو جب امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی رکعت پوری کرے گا تو پہلے قرأت کرے، پھر تکبیرات کہے، اس کے بعد رُکوع کی تکبیر کہہ کر رُکوع میں جائے۔( احسن الفتاوی :۴؍ ۱۲۶۔آپ کے مسائل اور ان کا حل) اگر امام کے رکوع سے سر اٹھانے کے بعد جماعت میں شامل ہو تو تکبیر زوائد نہ پڑھے بلکہ امام کی نماز ختم ہونے پر فوت شدہ رکعت مع تکبیرات زوائد ادا کرے۔اور اگر دوسری رکعت میں شامل ہو ا تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد اٹھ کر جو رکعت پڑھے گا اس میں قرأت کے بعد رکوع سے پہلے تکبیر کہے اور اگر تشہد میں شریک ہو تو بعینہ اسی طرح دورکعتیں تکبیرات کے ساتھ پڑھے جس طرح امام کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں۔ (دارالعلوم زکریاج۲ص۵۸۰)
عید کے دن مصافحہ اور معانقہ کا حکم:عام طور پر عید کے دن مصافحہ اور معانقہ کا اہتمام ہوتا ہے،اگر چہ یہ ملاقات دیگرمواقع پرثابت ہے ، لیکن عید کے دن نمازِعیدکے بعدمصافحہ اور معانقہ ثابت نہیں ہے،اس لئےاس کو دینی امر یا عید کی سنت سمجھنا اورجو لوگ ایسا نہ کریں، ان کو برابھلا کہنا صحیح نہیں ہے ،اس سے کرنا چاہیے۔( رد المحتار علی الدر المختار: ۶؍۳۸۱۔ مجالس الأبرار ۲۹۸)

SM ACADEMY
2445 W. Lunt Avenue, Apt GW Chicago, IL – 60645
USA +1773 727 2215
India +91 9989 478 786
info@shahmaseehullah.org