حصولِ علم کے آداب

حصولِ علم کے آداب

:حصولِ علم کے آداب

از مفتی محمد عطاء الرحمن ساجد مدیر شاہ مسیح اللہ اکیڈمی

ادب کی تعریف علماء نے یوں کی ہے : ”مَایُحمَدُ مِن القَولِ وَالفِعلِ”  ادب  اس قول اور فعل کو کہتے ہیں جس پر تعریف کی جائے ،علامہ سیوطی کہتے ہیں :  “اَلاَخذُ بِمَکَارِمِ الاَخلَاقِ” ادب عمدہ اخلاق کو اپنانے کا نام ہے۔

 حصولِ علم کے لئےادب اور تعظیم بہت ضروری ہے،کیونکہ ترک فعل اتنا خطرناک نہیں جتنا ترک ادب اور ترک تعظیم ہوتاہے،اسی وجہ سے آدمی اگر کوئی آدمی دین کے کسی حکم پر عمل نہیں کرتا ہے مثلا نماز چھوڑتا ہےتو وہ گنہگار ہوتا ہے، لیکن ایمان سے خارج نہیں ہوتا ،لیکن اگر وہی شخص دین کے اسی حکم کی اہانت کرے اور اس کی بے حرمتی کرےتو وہ ایمان  سے خارج ہوجاتا ہے، اس لئے کسی بھی شیئ کےحصول کے لئے اس کاادب و احترام اور اس کی تعظیم بہت ضروری ہوتی  ہے۔اسی تناظر میں فرمایا گیا :

“ماوصل من وصل الا بالحرمۃ۔ وما سقط من سقط الا بترک ِ الحرمۃ “

ذیل میں علم کے حصول سے متعلق چند حقوق اور آداب ذکر کئے جارہے ہیں ،جن کا لحاظ کرنا علم نافع کو حاصل کرنے اور طالب علم کو کامیاب بنانے کے لئے از حد ضروری ہے ،چنانچہ آداب علم سے متعلق حضرت عبد اللہ ابن مبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

اوَّلُ الْعِلْمِ النِّيَّةُ ثُمَّ الِاسْتِمَاعُ ثُمَّ الْفَهْمُ ثُمَّ الْحِفْظُ ثُمَّ الْعَمَلُ ثُمَّ النَّشْرُ (جامع بیان العلم وفضلہ:۷۵۸ ،شعب الایمان :للبیھقی:نشر العلم:”۱۶۵۸)

(۱)پہلا ادب یہ ہےکہ  نیت کی تصحیحِ  کی جائے، اسی پر انسان کےسارے اعمال اور ساری عبادات کی قبولیت کا مدار ہے۔ اور اسی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے   امام بخاری نے صحیح بخاری میں سب سے پہلی روایت انما الاعمال بالنیات  ذکر  کی ہے۔ اس میں ذرا سی غفلت انسان کو شرکِ اکبر یا شرکِ اصغر میں مبتلا کردیتی ہے۔اور اس کاوبال اتنا خطرناک ہےکہ حضرت ابو ہریرۃ فرماتے ہیں :

مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا مِمَّا يُبْتَغٰى بِهِ وَجْهُ اللّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَتَعَلَّمُهٗ إِلَّا لِيُصِيبَ بِهٖ عَرَضًا مِنَ الدُّنْيَا  لَمْ يَجِدْ عَرْفَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَة  يَعْنِی رِيحَهَا (سنن ابی داؤد : ۳۶۶۴)

جو علم سیکھے اور اس کے ذریعہ اللہ کی رضا مقصود نہ ہو بلکہ دنیوی کوئی غرض پیشِ نظر ہوتو قیامت کے دن وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا۔

دوسرے یہ کہ اگر نیت کی اصلاح نہ ہو تو توہینِ علم اورتوہینِ قرآن و حدیث لازم آئے گی،کیونکہ اس کابدلہ صرف اور صرف’’ رضائے الٰہی ‘‘،دنیوی اغراض اس کے سامنے کوئی معنیٰ نہیں رکھتیں ۔

(۲) اخلاق ذمیمہ اور ناشائستہ حرکات سے بچاجائے۔

(۳) احکامِ شریعت کی مکمل پابندی کیا جائے،اور  ورع و تقویٰ اختیار کیاجائے،اس کے بغیر علم نافع نہیں ہوتا،اور ورع کامل یہ ہےکہ  زیادہ سونے ، کثرتِ کلام  اور پیٹ بھر کر کھانے بالخصوص بازاری کھانوں سے اجتناب کیا  جائے۔

(۴) اساتذہ کی بات اور ان کی تعلیمات کو غور سےسناجائے،۔ کیونکہ اگربات غور سے نہ سنی جائےتو نہ اس کو محفوظ کیا جاسکتا ہے، نہ سمجھا جاسکتا ہے اور نہ اس پر عمل کیا جاسکتا ہے ۔

اسی لئے قرآن پاک میں یہ حکم ہے :

وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهٗ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (الاعراف : ۲۰۴)

اور جب قرآن پڑھا جایا کرے تو اس کی طرف کان لگایا کرو اور خاموش رہا کرو ، امید ہے کہ تم پر رحمت ہو۔

(۵)اساتذہ کا ادب و احترام کیا جائے،اس کی مختلف صورتیں ہیں۔ان کی اطاعت کرنا،ان کی خدمت کرنا،ان کی عظمت کرنا، تادیب پر عار اور ناگواری محسوس  نہ کرنا،ان کے سامنے زیادہ کلام نہ کرنا، ان کے آگے نہ چلنا، ان کی اجازت کے بغیر گفتگو نہ کرنا۔

(۶)  کتب کا ادب کیا جائے، ان پرٹیک نہ لگایاجائے، لیٹ کر نہ پڑھاجائے ، ان کی طرف پاؤں نہ کئے جائیں، اور کسی بھی طرح کی ان  کے ساتھ بے ادبی نہ کی جائے،ا ور مختلف فنون کی کتب کو ان کے درجات کےا عتبار سے رکھا جائے۔

(۷)  منتظمین اور ان کے دیگر عملہ کاادب و احترام کیا جائے،ان کے ساتھ ناشائستہ  اور غیر اخلاقی حرکت سے بچاجائے ۔

(۸) اسباق کے دوران دیگر مسالک کے ائمہ کا ادب و احترام  بھی کیاجائے۔

(۹) آپ ﷺ کے نامِ نامی کے ساتھ درود شریف ، حضرات ِ صحابہ کرام ؓ کے ساتھ ترضیہ اور ائمہ ٔ دین کے ساتھ ترحیم کا اہتمام کیا جائے۔

 (۱۰) اپنی محنت پر عدم اعتماد کرتے ہوئے اللہ کی مددطلب کی جاتے رہے۔

(۱۱) کتب پڑھنے کے دوران با وضو رہنے کا اہتمام کیا جائے۔

(۱۲) استکبار نہ کیاجائے،مام بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ مستحیی اور متکبر علم سے محروم رہتے ہیں۔

(۱۳) جو باتیں پڑھائی جارہی ہیں ان کو یاد رکھاجائے۔

(۱۴)ان کوصحیح سمجھاجائے، حضرت عبد اللہ مسعودؓ مرفوعا نقل کرتے ہیں :

نَضَّرَ اللّٰهُ عَبْدًا سَمِعَ مَقَالَتِي فَحَفِظَهَا وَوَعَاهَا وَأَدَّاهَا، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ غَيْرِ فَقِيهٍ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَى مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ (مسند الشافعی   ،مسند احمد: ۲۱۵۹۰)

اللہ تعالی اس آدمی کو خوش و خرم رکھے جو مجھ سے حدیث سنے پھر اس کو یاد رکھے ،یہاں تک کہ اس کو دوسروں تک پہنچادے،کیونکہ بہت سے لوگ جو حدیث کو سنتے ہیں اور یاد رکھتے ہیں وہ فقیہ نہیں ہوتے ،اور بہت سے لوگ وہ ہوتے ہیں جو حدیث لینے والوں سے زیادہ فقیہ ہوتے ہیں۔

اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ حدیث سننے کے بعد اس کو محفوظ رکھنا بھی ضروری ہے،جائے ،جیساکہ یہ بات آگے  آرہی ہے،دوسرے یہ کہ جو بات سنی گئی ہے اس کو جوں کا توں آگے پہنچانا بھی ضروری ہے،کیونکہ سننے کا مقصد صحیح سمجھنا بھی ہے،ممکن ہے کہ حدیث سننے والا فقیہ نہ ہو،اور حدیث شریف کے نکات اور مضامین کو نہ سمجھ سکے،اور اس سے مسائل کا استنباط نہ کرسکے،اس لئے فرمایاکہ دوسروں تک اس کو پہنچادیاجائے ،تاکہ دیگر اہل  علم اور اہل فقہ اس کو صحیح سمجھ کر اس سےمسائل اور احکام کا استنباط کرسکیں۔

آج امت کے فتنوں میں سے ایک  بہت بڑا فتنہ قرآن و حدیث کو نہ سمجھنا ہے،قرآن و حدیث موجودہ دور کے نوجوانوں کے ذہن و دناغ کا کھلونا بن کر رہ گئے ہیں ،من مانی تحریفات امت میں گشت کررہی ہیں ،اس طرح کچھ نااہلوں نے دین کے نام پر  جہالت و ضلالت کا ایک وسیع دروازہ کھول دیا ہے۔

(۱۵)حصول علم کے بعداس پر عمل بھی کیاجائے، کیونکہ بے عمل عالم کی آخرت میں  سخت  پوچھ ہے، ایک روایت میں ہے:

’’ لَا تَزُولُ قَدَمُ ابْنِ آدَمَ مِنْ بَيْنَ يَدَیْ رَبِّهٖ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتّٰى يُسْأَلَ عَنْ خَمْسِ خِصَالٍ: عَنْ شَبَابِهٖ فِيمَا أَبْلَاهُ، وَعُمُرِهٖ فِيمَا أَفْنَاهُ، وَعَنْ مَالِهٖ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهٗ وَفِيمَا أَنْفَقَهٗ، وَمَاذَا عَمِلَ فِيمَا عَلِمَ‘‘(شعب الایمان :للبیہقی:نشر العلم:۱۶۴۷)

حضرت عبد اللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے  ارشاد فرمایا:قیامت کے دن ابن ِآدم  کے قدم اپنے رب کے سامنے سےہٹ نہیں سکتے  جب تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارےمیں سوال نہ کرلیاجائے،اس کی جوانی سے متعلق کہ کہاں اس کو پرانا کیا؟اس کی عمر سے متعلق کہ کہاں اس کو ختم کیا؟اس کے مال سے متعلق کہ کہاں سے کمایا اور کہاں اس کو خرچ کیا؟اور اس کے علم سے متعلق کہ اپنے علم پر کتنا عمل کیا؟اس سے عمل کی اہمیت معلوم ہوتی ہے کہ جب تک  عالم سے اس کےعمل کے بارے میں سوال نہ کیا جائے وہ آگے جا نہیں سکتا۔

ایک اور حدیث میں ہے :

(۱۶) حصول علم کے بعد اس کی تبلیغ کی جائے، انبیاء کرام کی بعثت اسی لئے ہواکرتی تھی ،اسی لئے آپ ﷺنے فرمایا : ” بَلِّغُوا  عَنِّی وَلَو آیَۃ “(صحیح بخاری :  کتاب احادیث الانبیاء،۳۴۶۱)

اسی طرح  حجۃ الوداع کے موقع پربھی آپ نے ارشاد فرمایا تھا : “فَلیُبَلِّغُ الشَّاھِدُ الغَائِبَ ”  (صحیح بخاری : کتاب الحج،۱۷۳۹)

کیونکہ انسان کے ذمہ محض اس کی ذات کی اصلاح نہیں ہے، بلکہ اوروں فکر بھی  اس کی شرعی ذمہ داری ہے ،عالم نبی کے علم ،عمل ،اخلاق ،صفات اور دینی ذمہ داریوں کا وارث ہوتا ہے،یہ اس کا وراثتی  حق ہے کہ اپنی ان ذمہ داریوں کو سمجھے،اور ان کو بجالانے کی کوشش کرے۔

(۱۷) آداب علم میں قصداً یا سہواکوتاہی ہوجائے تو قلبی ندامت کے ساتھ استغفار کیاجائے۔ یہ علم کے کچھ حقوق  اور آداب ہیں، علماء نے لکھا ہےکہ جیسے مال اور بدن کی زکوۃ ہوتی ہےایسے ہی علم کی  بھی زکوۃ  ہوتی ہے،جیسے مال کی زکاۃ ادا کرنے سے مال پاک ہوتا ہےاور بڑھتا ہے، ایسےہی علم کی زکوۃ ادا کرنےسے علم میں جلاء پیداہوتی ہے،اور وہ صاف ستھرا ہوتا ہے،اس میں برکت اور اضافہ ہوتا ہے۔اور وہ زکوۃ علم پر عمل اور اس کی تبلیغ ہے۔