گستاخِ رسول کا شرعی حکم

گستاخِ رسول کا شرعی حکم

:گستاخِ رسول کا شرعی حکم

امت مسلمہ فی الحال جس نازک دور سے گزر رہی ہے اور جن حالات کا اسے سامنا ہے ان میں سے ایک اسلام ،اہلِ اسلام ، شعائر اسلام اور اسلام کی مقدس شخصیات سے متعلق بے ادبی ، بے احترامی،توہین ،اور استہزاء کے واقعات کا ظہور ہے،وقتا فوقتا اہل اسلام کے جذبات کو ٹھیس پہونچانے اور اسلام سے متعلق لوگوں  میں  غلط فہمی پیدا کرنے کے لئے  دشمنان اسلام کی جانب سے ایک سازش کے تحت یہ کھیل رچا جارہا ہے۔اس تناظر میں بعض اہلِ علم کی جانب سے اسلامی اور غیر اسلامی ممالک   کے فرق کے ساتھ  امراء،علماء اور عوام کی ذمہ داریوں سے متعلق شرعی  رہنمائی طلب کی گئی ،جس کے جواب میں یہ چند سطور اکابر علماء کی تحریرات اور اقتباسات سے استفادہ کرتے ہوئے زیرِتحریر لائی گئیں ۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

إِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ اللہَ وَرَسُولَهٗ لَعَنَهُمُ اللهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِيْنًا (الاحزاب:۵۷)

 ترجمہ:”بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو تکلیف پہنچاتے ہیں ان پر اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں لعنت کرتا ہے، اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کررکھا ہے“

مَلْعُوْنِيْنَ أَيْنَمَا ثُقِفُوْا أُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَقْتِيْلاً( الاحزاب:۶۱)

ترجمہ: (وہ) ملعون ہیں جہاں پائے گئے پکڑے گئے جان سے مارے گئے۔“

اسلام میں اہانتِ رسول اورگستاخیِ رسول  کا مسئلہ انتہائی نازک ہے، جو شخص چاہے کافر ہو یا مسلم امام الانبیاء رحمۃ للعالمین کی شان میں گستاخی کرتا ہے یا آپ کی سیرت مبارکہ کے کسی گوشے کے بارے میں استہزائیہ انداز اختیار کرتا ہے یا آپ شان مبارکہ کے بارے میں گستاخی کرتا ہے یا آپ کے بارے میں سب وشتم کرتا ہے یا یا آپ کی طرف بری باتوں کو منسوب کرتا ہے، تو ایسا شخص کافر، مرتد، زندیق، ملحد  اور واجب القتل ہے۔ (رد المحتار، فصل فی الجزیۃ مطلب فی حکم سب الذمی النبی،۴/۲۱۳۔ تنبیہ الولاۃ والحکام علی احکام شاتم خیر الانام او احدا صحابہ الکرام علیہ وعلیھم الصلاۃ والسلام،۱/۳۲۵)

علامہ ابن تیمیہ نے اپنی کتاب الصارم المسلول علی شاتم الرسولﷺمیں گستاخِ رسول  کے قتل پر مسلمانوں کااجماع نقل کیا ہے۔ (الصارم المسلول علی شاتم الرسول ﷺص۹)

قال الخطابی: لا اعلم احدا من المسلمین اختلف فی وجوب قتلہ (الصارم المسلول علی شاتم الرسول ﷺص۹)

آگے محمد بن سحنونؒ کا قول نقل کیا:اجمع العلماء علی ان شاتم النبی ﷺالمتنقص لہ کافرو الوعید جار علیہ بعذاب اللہ لہ وحکمہ عند الامۃ القتل ومن شک فی کفرہ وعذابہ کفر۔ (الصارم المسلول علی شاتم الرسول ص۹)

ترجمہ: ”علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ نبی کریمﷺ کو سب و شتم کرنے والااور جناب رسول اللہﷺ کی تنقیص کرنے والا کافر ہے۔ اس کے بارے میں اللہ کے عذاب کی وعید آئی ہے اور تمام امت کے ہاں اس کا حکم (صرف) قتل ہے اور جو شخص شاتم رسول کے کفر اور عذاب کے بارے میں شک کرے گا وہ بھی کافر ہوگا۔

نیز یہ بات بھی واضح رہے کہ ذمی شاتم رسولﷺ کو قتل کرنے کا قانون ائمہ اربعہ   کا بنایا ہوا قانون نہیں بلکہ یہ وہی قانون ہے جس کی بنیاد بحکم الٰہی امام الانبیاء نے کعب بن اشرف یہودی کے قتل کے حکم کے ساتھ رکھی اور یہ وہی قانون ہے جس پر سب سے پہلے عمل کرنے والی صحابہ کرام   کی جماعت ہے لہٰذا مسلمانوں کے ہاں یہ قانون تاقیامت باقی رہے گا۔

چنانچہ آپ ﷺنے دنیا میں ہی اپنی حیات طیبہ میں بہت سے شاتمین رسو ل کو قتل کروایا ،جن میں کعب بن اشرف، اسود عنسی ، ابو رافع ، ابو عفک،حویریث ابن نقید،ابن اخطل کی دو باندیاں  اورعصماء نامی شاعرہ وغیرہ سرفہرست ہیں۔اس کے علاوہ بہت سے شاتمین سے صحابہ کرام   نے انتقام لیا،جب  آپ   علیہ السلام اس  کی خبر ہوئی تو آپ بہت خوش ہوئے اور بعض جگہ تو فرمایا :”الا اشھدوا ان دمھاھدر“لوگو! آگاہ رہو کہ اس کا خون مباح ہے۔

اس لئے امت مسلمہ کا ساڑھے چودہ سو برس سے اس مسئلہ پر اجماع چلا ٓرہا ہےکہ گستاخانِ رسول کی سزا صرف اور صرف قتل ہے،اوراس کو اس دھرتی پر رہنے کا کوئی  حق نہی ہے۔لیکن ظاہر ہےکہ اس دنیا میں مختلف اقوام اور مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں ،ہر جگہ اسلامی حکومت بھی قائم نہیں ہے،کئی ممالک کی ظاہرا ہی سہی جمہوریت بنیاد ہے،اس لئے ہر جگہ اسلامی احکام اور حدود کا نفاذ نہیں کیا جاسکتا ،اس پس منظر میں احکام شرعیہ کی بھی مختلف صورتیں ہیں جو ذیل میں نقل کی جارہی ہیں ،خلاصہ ان کا یہ ہے :

(۱) اگر کسی اسلامی ملک میں اس طرح کی گستاخی کا واقعہ پیش آتا ہےتو  اسلامی حکومتوں اور عدالتوں کی ذمہ داری ہے کہ اس کو فوری طور پر قتل کرکے جہنم رسید کریں، کسی کیلئے یہ قطعاً جائز نہیں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے دشمن کی پشت پناہی کرے یا اس کے لیے ہمدردی کے جذبات رکھے۔

(۲)اگر شاتم رسول اسلامی مملکت میں نہ ہو تو اس صورت میں مسلم ممالک کی یہ ذمہ داری بنتی ہےکہ عالمی عدالت میں اس کامقدمہ دائر کیا جائے ، اور ایسے مجرموں کو بین الاقوامی مجرم ثابت کرتے ہوئے سزائے دلوائے۔

(۳)اگر عالمی عدالت میں مقدمہ دائر نہ کیا جاسکتا ہوتو اس ملک پر سفارتی دباؤ ڈالتے ہوئے انہی سزائے دلوائی جائے۔ یا ان مجرموں کی تحویل کے لئے بھر پور کوشش کی جائے ، اوراس کو کسی اسلامی ملک میں لاکر ان کو نمونہٴ عبرت بنایاجائے۔

(۴)اگر یہ صورتیں ممکن نہ ہوں  تو حکومتِ وقت اور اس کے تمام ذمہ داران اپنے ایمان کی بقاء کی خاطر ایسے ممالک سے سفارتی ،تجارتی  تعلقات ختم کردیں ،اور ان کی مصنوعات  کا بائیکاٹ کریں ۔

(۵) یہ بات بھی ذہن نشین ہونی چاہیےکہ قتل کی ذمہ داری اور اسلامی سزا کا نفاذ عدالت کا کام ہے ، ہر شخص کیلئے اس کی گنجائش نہیں ہےکہ خود زمام ِحکومت اپنے ہاتھ میں لے،اور ان سزاؤ ں کو نافذ کرے ،جو خلافِ انتظام ہونے کے ساتھ ساتھ ملک اور معاشرہ کے لئے بد امنی اور نقصان کا باعث ہے،البتہ اگر کسی نے شاتمِ رسول کو قتل ہی کردیا تو شرعاً چونکہ اس شخص کا خون مباح ہے،لہٰذا قتل کرنے والے کو سزا نہیں دی جائے گی۔بلکہ بعض علماء نے اس کو باعث ثواب بھی بتلایا ہے۔جیساکہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہےکہ ایک یہودیہ نبی کریم   ﷺ  کو گالیاں دیتی اور برا بھلا کہتی تھی،ایک صحابی نے نے اُس کا گلا گھونٹ دیا یہاں تک کہ وہ مرگئی،آپ ﷺ  نے اُس کے خون کو ناقابل ِسزا قرار دے دیا ۔(سنن ابی داود: باب الحکم فی من سب ،۴۳۶۱۔رسائل ابن ِعابدین” ج١/٣٥٤  و  خلاصة الفتاویٰ  ج٤/٣٨٦  و  شامیہ ج٤/٢١٥)

(۶)یہ احکام  ان ممالک سے متعلق ہیں جہاں  اسلامی حکومتیں قائم ہیں ، ہم جس ملک کے باشندے ہیں، وہ نہ تو مسلم ملک ہے، اور نہ اس کا دستور اسلامی ہے، بلکہ یہ ایک ایسا جمہوری ملک ہے جس کا ہر شہری اس کے جمہوری دستور وقانون کا مکلف وپابند ہے، اور اس کی رُو سے ہر شہری پر ایک دوسرے کی جان ومال اور مذہب ودھرم کا احتِرام لازم ہے، نیز حکومت بھی اپنی عمل داری میں اقلیتوں کے وجود اور قومی ، نسلی، ثقافتی، مذہبی ولسانی تشخُّص کی حفاظت کی پابند ہے، مگر یہ بات انتِہائی افسوس ناک ہے کہ کچھ عرصہ سے بعض شرپسند عناصر؛ اسلام، پیغمبرِ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف توہین آمیز و اشتِعال انگیز بیانات دے کر ملک کے امن وامان، اخوت وبھائی چارے کی فضا کو مسموم کرکے، اس کے اتحاد وسا  لمیت کے لیے خطرات پیدا کرنے میں مصروف ہیں، ایسے حالات میں ہم مسلمانوں پر لازم ہے کہ صبر وحلم کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے دیں، پُر تشدُّد ردّ ِ عمل سے گُریز کریں، کہ وہ ہمارے لیے ہی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے، البتہ اپنے دستوری حقوق؛ دین ومذہب، جان ومال، عزت وآبرو کی حفاظت کے لیے حسنِ تدبیر کے ساتھ حکومتِ وقت پر دباؤ بنائیں، اور اسلام، پیغمبرِ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف توہین آمیز واشتِعال انگیز بیانات دینے والوں کو ، ملکی قوانین میں موجود دفعات کا سہارا لے کر قرارِ واقعی سزا دلوانے کے لیے عدالتوں سے رُجوع کریں۔

اس کے علاوہ ہر مسلمان کے ذمّہ ہے کہ اس میں جتنی قوت و طاقت ہو وہ جائز اور ممکن طریقوں کے ذریعہ ایسی گستاخانہ حرکتوں کو اور ایسی گستاخانہ حرکت کرنے والوں کو اور اُن کے اسباب و ذرائع کو روکیں اور جس میں یہ قدرت نہ ہو اُن پر زبان سے اس کی خرابی اور برائی بیان کرنا واجب ہے۔ اور جس کو زبان سے کہنے میں جان و مال کا خطرہ ہو اُس کے لیے دل میں برا جاننا واجب ہے ،جیساکہ مسلم شریف کی حدیث میں یہی تفصیل آئی ہے  :  ”سرکارِ دو عالمﷺ  نے فرمایا  :  تم میں سے جو شخص برائی کو دیکھے تو چاہیے کہ اپنی طاقت سے اس کو روکے، اگر اِس کی قوت نہ ہو تو زبان سے اِس کو منع کرے، اگر اِس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے اِس کو بُرا سمجھے، یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔

اسی طرح ہماری غیرتِ ایمانی کے تقاضے یہ ہیں کہ  ان کے ساتھ تعلقات کو ختم کردیا جائے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُوْنَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ ۔الخ(الممتحنہ :۱)

ترجمہ:”اے ایمان والو! تم میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بنائو کہ ان سے دوستی کا اظہار کرنے لگو۔“

ان کےخلاف  معاہدات اور تجارتی معاملات کو ختم  کردیاجائے۔ اور ان کی تمام مصنوعات کا کا بائیکاٹ کیا جائے۔

چنانچہ کتب ِاحادیث میں ثَمامَہ ابن اُثَال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔وہ اپنی قوم کے سردار تھے اور اسلام لانے کے بعد جب وہ مکہ مکرمہ گئے اور اہل ِمکہ نے اُن کے اسلام لانے کو توہین آمیز الفاظ سے تعبیر کیا تو اُنہوں نے اہل مکہ کے ساتھ تجارتی تعلقات ختم کردیئے، اس طور پر کہ اہل مکہ کے لیے یَمَامَہ سے آنے والے غلہ کی درآمد پر پابندی لگائی اور یہ کہا کہ اُس وقت تک یہ پابندی برقرار رہے گی جب تک رسول اللہ  ﷺ  اِس کی اجازت نہ دیدیں۔ چنانچہ جب اہل مکہ غلہ کی درآمد پر پابندی لگنے کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوئے تو اُنہوں نے آپ علیہ السلام سے درخواست کی کہ آپ ثمامَہ ابن اُثَال رضی اللہ عنہ کے نام” والا نامہ” تحریر فرمائیں کہ وہ اس پابندی کو ختم کردیں۔ چنانچہ حضور  ﷺ  نے اُن کی یہ درخواست منظور فرماتے ہوئے ثمامہ ابن اُثال رضی اللہ عنہ کی جانب ایک مکتوب مبارک تحریر فرماکر اِرسال کیا، اس کے بعد یہ پابندی ختم کردی گئی۔ اور معاہدات ختم کرنے کی تائید اِس سے بھی ہوتی ہے کہ حضور  ﷺ  جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو اَنصار اور مہاجرین کے درمیان ایک تحریری معاہدہ فرمایا اور اس معاہدہ میں یہود کو بھی شامل کیا، لیکن بعد میں یہود کی سازشوں، ریشہ دوانیوں اور گستاخیوں کی بناء پر معاہدہ ختم فرمایا حتّٰی کہ بعض یہود کے خلاف جہاد فرمایا اور بعض یہود کو جلاوطن فرمایا۔ (مسلم: ج٢/٩٣ ۔مرقاة المفاتیح  ج ٨/٥١٢ ۔ الصارم المسلول لابن تیمیہ صفحہ ٦٦)

ایسے ہی ایک ان گستاخان کے خلاف پر امن اطریقہ پرحتجاج کیا جائے ،جس میں ناجائز کاموں کا اِرتکاب نہ ہو، لوگوں کی اَملاک اور اَموال کو نقصان نہ پہناچایاجائے ۔

مسئلہ کی نزاکت کے پیشِ نظرذیل میں چند گستاخانِ رسول اور ان سے متعلق نبوی ہدایات اور واقعات  بھی ملاحظہ فرمائیں:

(۱)کعب بن اشرف یہودی کا قتل  :

آنحضرت  ﷺ  کی شان میں گستاخی کرنے والوں میں ایک یہودی کعب بن اشرف بھی تھا۔ یہ شاعر ہونے کے علاوہ بڑا مالدار یہودی تھا۔ غزوۂ بدر میں قریش کی شکست کا اِس کو یقین نہ آتا تھا ،جب حقیقت معلوم ہوئی تو اُس نے کہا قریش کے سردار جو حرم کے نگہبان اور عرب کے بادشاہ ہیں اُن کی موت کے بعد ہم جیسوں کا زمین پر چلنے پھرنے سے مرجانا بہتر ہے، مکہ مکرمہ گیا اور قریش کے غزوۂ بدر میں قتل ہونے والے سرداروں کے ماتم میں قریش کے ساتھ شریک ہوا اور انہیں مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتا رہا ،اور مشرکوں کو مسلمانوں کے خلاف جنگ پر اُکساتا رہا، مدینہ منورہ واپس آکر نئے جوش اور جذبے کے ساتھ رسول اللہ  ﷺ کی توہین میں منہمک ہوگیا، مسلمانوں کی دِل آزاری کی خاطر اُن کی بیبیوں کا نام لے کر عاشقانہ اشعار کہنے لگا،اس کی ان گستاخانہ حرکتوں کی بنیاد آپ ﷺ  نے اِرشاد فرمایا کہ کون ہے جو مجھے اِسکے شر سے نجات دلوائے؟ حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے حامی بھرلی اور عرض کیا  کہ اِس کوشش میں اگر کوئی بات بے ادبی اور بظاہر ایمان کے خلاف ہو تو جائز ہوگی؟ فرمایا تمہیں اجازت ہے۔ چنانچہ منصوبہ بنایا گیا، ابونائلہ جو کعب بن اشرف کے دودھ شریک بھائی تھے اور حضرت عباد بن بشر اور حضرت ابوعبس بن جبیر کو اِس میں شریک کیا گیا، منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وہ کعب کے پاس گئے۔ اِدھر اُدھر کی باتیں ہوئی، ایک دوسرے کو اپنے اپنے اشعار بنائے۔ جب اعتماد کی فضا بن گئی تو کہا میں ایک ضرورت سے آیا ہوں اگر رازداری کا عہد کرو تو بیان کروں، اُس نے جواب دیا کیا تم اپنے بھائی پر بھی اعتماد نہ کروگے؟ فرمایا اِس شخص (رسول اللہ  ﷺ)  نے ہم سے صدقہ طلب کیا ہے، جو ہمارے لیے مشقت کا باعث ہے، ہم پر احسان کرو، کچھ غلہ اورکھانے پینے کی چیزیں ہمیں دو ،ہم اِس کے بدلے کچھ نہ کچھ رہن رکھیں گے۔ پوچھا کیا اپنی بیویوں کو گروی رکھوگے؟ انہوں نے کہاکہ نہیں اِس میں بڑی رُسوائی ہوگی،اس نے کہاکہ بچوں کو رہن رکھ دو، انہوں نے کہاکہ یہ بات بھی ذلت کا باعث ہوگی، پھر کہنے لگے کہ تم احسان سے کام لو، اگر رہن ہی رکھنا ہے تو ہمارے ہتھیار رکھ لو اِس سے غلہ کی قیمت بھی ادا ہوجائے گی،کعب نے رضا مندی ظاہر کی،حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کے پاس آئے اور کہا ہتھیار سجالو، پھر سب مل کر حضور اقدس ﷺ  کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے انہیں بقیع الغرقد تک چھوڑدیا اور فرمایا اللہ کے نام پر اُس کی مدد کے بھروسے چلے جاؤ، وہ سب کعب کے قلعہ پر پہنچے اور محمد بن مسلمہ نے آواز دی ،ہرچند اُس کی نئی دُلہن روکتی رہی لیکن وہ تو رسول اللہ  ﷺ  کی دشمنی میں اندھا ہوا جارہا تھا، کہا :جواں مرد تو وہ ہے جب رات میں بھی اُس کو نیزہ بازی کے لیے بلایا جائے تو دیر نہ کرے، اُس کے آنے کے بعد دونوں کچھ دیر آپس میں باتیں کرتے رہے ،محمد بن مسلمہ نے کہا کہ کس قدر خوشبو مہک رہی ہے؟ اے ابن ِاشرف یہ اِس تیل کی مہک ہے جو تم نے سر میں لگایا ہے ،اس کے بعد اس کےبعد اس خوشبو کو سونگھنے کی اجازت چاہی ،اورسر کوپکڑکر خوشبو کو سونگھنے لگے،دو تین مرتبہ اس کی خوشبو کو سونگھا ،وہ بڑا خوش ہوا ،اسی دوران انہوں نے موقع دیکھ کر ُس کے بال مضبوطی سے جکڑلیے اور آوازدی اِس دشمن خدا اور دشمن رسول    کا کام تمام کردو۔ ہر طرف سے تلواریں پڑنے لگیں، حضرت محمد بن مسلمہ نے اپنا چھوٹا خنجر اُس کی ناف میں گھونپ دیا اور اُس نے زور کی چیخ ماری۔ جلدی سے آپ نے اِس لعین کا سر کاٹا اور حضور  ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، بقیع غرقد کے قریب پہنچے تو  اَللّٰہُ اَکْبَرُ کا نعرہ لگایا، آواز حضور  ﷺ تک پہنچی تو سمجھ گئے کہ کام تمام ہوگیا، آپ   نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا فرمائی۔ صبح یہودی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اِس قتل پر اپنی پریشانی کا اظہار کیا۔ اِرشاد ہوا تم کعب کے اشعار اور اُس کے گستاخانہ اندز اور کھلی مخالفت سے خوب واقف ہو ،اگر تم معاہدے پر قائم رہو تو پھر کسی سے کوئی عداوت نہیں۔  (صحیح بخاری : باب قتل کعب ابن الاشرف ،۴۰۳۷)

(۲)گستاخِ رسول ابو رافع کا قتل:

ابورافع اسلام دشمنی میں کعب بن اشرف کا معین اور مددگار تھا۔ اس کا نام عبد اللہ تھا جو اُم المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے پہلے شوہر کا بھائی تھا۔ بہت مالدار تاجر تھا اور خیبر میں اپنے قلعہ میں رہتا تھا۔ ابورافع اِس کی کنیت تھی، رسولِ خدا  ﷺاور مسلمانوں کی دشمنی میں پیش پیش تھا، کعب بن اشرف کو جہنم رسید کرنے کا شرف قبیلہ اَوس کے حصہ میں آیا تھا۔ ایسا ہی اعزاز قبیلہ خزرج کے لوگ بھی حاصل کرنا چاہتے تھے، آخر ابورافع پر اُن کی نظر پڑی، حضور  ﷺسے اجازت لے کر حضرت عبد اللہ بن عتیک، مسعود بن سنان اور عبد اللہ بن انیس رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اِس کام کو انجام دینے کا بیڑہ اُٹھایا۔ اس جماعت کا امیر حضرت عبد اللہ بن عتیک کو بنایا گیا۔ خیبر میں اُس کے قلعہ کے قریب شام کے وقت پہنچے۔ حضرت  عبد اللہ بن عتیک نے اپنے ساتھیوں سے کہا میں کسی نہ کسی ترکیب سے قلعہ کے اندر جاؤں گا۔ اندھیرا پھیلنے لگا تو حضرت عبد اللہ بن عتیک قلعہ کی فصیل کے قریب ایسے بیٹھ گئے جیسے قضائے حاجت کے لیے بیٹھے ہوں، دربان نے سمجھا اپنا ہی آدمی ہے، دروازہ بند کرنے کا وقت آیا تو آواز دی اندر آجاؤ، یہ سنتے ہی وہ قلعہ میں داخل ہوکر لوگوں میں شامل ہوگئے۔ ابورافع بالاخانے پر رہتا تھا۔ رات گئے قصہ خواں اُس کے پاس جمع رہتے تھے۔ جب یہ محفل برخواست ہوگئی تو دربان نے تمام دروازے بند کیے اور چابیوں کو ایک طاق میں رکھ کر خود بھی سوگیا۔حضرت عبد اللہ بن عتیک نے دربان کو غافل پایا تو کنجیاں اُٹھالیں۔ قلعہ کے ہر کمرے کا اندرونی تالا کھولتے اور اُسے اپنے پیچھے بند کرلیتے تاکہ اگر کوئی اندر داخل ہونا چاہے تو راستہ نہ پاسکے۔ آخر وہ اُس مقام پر پہنچ گئے جہاں ابورافع اپنے بچوں کے ساتھ سویا ہوا تھا۔ اندھیرے کی وجہ سے وہ دکھائی نہیں دے رہا تھا، اُنہوں نے آواز دی ابورافع! جواب ملا کون ہے؟ حضرت عبد اللہ نے آواز کے رُخ پر تلوار سے وارکیا بدحواسی میں واراَوچھاپڑا،ابورافع نے شور مچایا،کچھ وقت گزرا تو آواز بدل کر پوچھا یہ شور کیسا ہے؟ ابورافع نے جواب دیا کوئی میرے کمرے میں گھس آیا ہے اور مجھ پر وَار کیا گیا ہے۔ حضرت عبد اللہ   قریب پہنچے اور تلوار اُس کے پیٹ میں گھونپ دی جو آرپار ہوگئی۔ وہ کہتے ہیں کہ میں دروازہ کھولتا ہوا آخری زینے تک پہنچا سمجھا کہ زمین آگئی ہے آگے بڑھا تو بلندی سے نیچے گرپڑا اور پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ عمامہ نکال کر اِسے باندھ لیا اور ساتھیوں کے پاس فصیل کے باہر پہنچ گیا،اُن سے کہا تم جاؤ اور رسول اللہ  ﷺ کو خوشخبری سناؤ، میں صبح اس کی موت کی تصدیق کے بعد آؤں گا۔ مرغ نے بوقت فجر اذان دی تو منادی نے قلعہ سے اعلان کیا کہ کسی نے ابورافع کو قتل کردیا ہے۔ یہ سن کر میں خوش خوش مدینہ منورہ آیا ،حضور  ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، حضورﷺ  نے اپنے دست ِ مبارک سے پنڈلی کی ٹوٹی ہڈی پر لعاب دہن لگایا جو اچھی ہوگئی۔پھر کبھی اس پیر سےمتعلق مجھے کوئی شکایت نہ رہی۔(صحیح بخاری :باب قتل ابی رافع،۴۰۳۹)

(۳)ایک نابینا صحابی کی گستاخ ام ولد کا عبرتناک انجام:

ابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ ایک اندھے کی ام ولد تھی، جو نبی علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دیتی وہ اسے روکتا اور ڈانٹتا مگر وہ باز نہ آتی ایک رات اس نےپھر نبی علیہ الصلوۃ والسلام کی ہجو کی گالیاں دیں تو اس کے خاوند نے خنجر نکال کر اس کے پیٹ پر رکھا اور اسے دبایا اور اسے قتل کر دیا اس کے پاؤں کے درمیان بچہ خون میں لت پت ہو گیا۔ صبح رسول علیہ الصلوۃ والسلام سے ذکر کیا گیا، لوگ اکٹھے ہوئے ،آپ نے فرمایا جس شخص نے یہ کام کیا ہے اسے میں اﷲ کی قسم دیتا ہوں اور میرا جو اس پر حق ہے وہ کھڑا ہو جائے تو ایک نابینا کھڑا ہوا ،جو لوگوں کو پھلانگ رہا تھا اور ڈگمگا رہا تھا یہاں تک کہ وہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے بیٹھ گیا اور کہا اے اﷲے رسول میں اس کا خاوند ہوں ،میری بیوی آپ کو گالیاں دیتی، ہجو کرتی ،میں اسے روکتا وہ نہ رکتی، میں اسے ڈانٹتا لیکن پھر بھی وہ باز نہ آتی، میرے اس کےبطن سے دو موتیوں جیسے بچے ہیں ، وہ میری رفیقہ حیات تھی، پچھلی رات اس نے آپ کی ہجو کرنی شروع کی اور گالیاں نکالنے لگی میں نے خنجر لے کر اس کے پیٹ پر رکھا اور اس پر زور دیایہاں تک کہ میں نے اس کو قتل کر دیا ،آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا لوگو گواہ رہنا کہ اس کا خون رائیگاں گیا۔(سنن ابی داود: باب الحکم فی من سب ،۴۳۶۱)

(٤)  یہودیہ عَصْمَاء شاعرہ کا انجام  :

بنی خطمہ میں ایک یہودیہ عصماء نامی عورت شاعرہ تھی۔ اُس نے اپنی شاعری کا رُخ مسلمانوں کی ہجو کی طرف موڑدیا تھا، خصوصاً رسول اللہ  ﷺ کی شان میں بڑے گستاخانہ اشعار کہتی تھی، اور لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف لڑائی پر اُبھارتی تھی ،اپنے ایَّامِ ماہواری کے گندے کپڑے مسجد میں ڈالا کرتی، حضور  ﷺابھی غزوہ بدر سے واپس نہ ہوئے تھے کہ اُس نے اپنے اشعار میں حضور  ﷺکی شان میں ہجو اور گستاخی شروع کردی،ایک نابینا صحابی عمیر بن عدی رضی اللہ عنہ نے سنا تو د ل میں عہد کرلیا کہ اگر حضور  ﷺغزوۂ بدر سے بسلامت واپس تشریف لائے تو میں اِس شاعرہ کی زبان بند کروں گا، الحمد للہ حضور  ﷺ  بدر سے فاتحانہ تشریف لائے تو حضرت عمیر رضی اللہ عنہ اپنی منت پوری کرنے کے لیے تلوار لے کر نکلے۔ رات کے وقت اُس کے گھر میں داخل ہوئے ،راستہ ٹٹولتے ٹٹولتے اُس کے قریب پہنچے، بچہ اُس کی چھاتی سے لگا ہوا تھا اُسے ایک طرف کیا اور تلوار دل میں چبھودی وہ آواز تک نہ نکال سکی اور مرگئی۔صبح نماز مسجد نبوی میں ادا کی اور حضور  ﷺ  کو اِس کی اطلاع دیتے ہوئے عرض کیا ،کیا مجھ سے کوئی مواخذہ تو نہیں ہوگا؟ فرمایا: نہیں،حضور  ﷺ کے پاس سے عمیر رضی اللہ عنہ لوٹ رہے تھے تو عصماء کے لڑکے نے کہا یہ ہماری ماں کا قاتل ہے۔ جواب میں کہا بیشک میں نے ہی اِسے قتل کیا ہے اور اگر کسی نے پھر ایسی جرأت کی تو اُسے بھی موت کا مزہ چکھائوں گا، حضور  ﷺ  نے لوگوں سے فرمایا  :  اگر کوئی ایسے شخص کو دیکھنا چاہتا ہو جس نے اللہ اور اُس کے رسول  ﷺ  کی غائبانہ مدد کی ہو تو وہ عمیر بن عدی   کو دیکھے۔ یہ بھی ارشاد ہوا کہ اِن کو نابینا نہ کہو یہ بینا اور بصیر ہیں ۔وہ بیمار ہوئے تو عیادت کے لیے جاتے ہوئے فرمایا کہ مجھے بنی واقف کے بینا کی عیادت کے لیے لے چلو۔

 (٥)  یہودی شاعر ابو عفک کا قتل  :

قبیلۂ بنی عمرو بن عوف میں ابوعفک ایک شاعر تھا۔ اس کی عمر ١٢٠ سال تھی، ہر وقت رسول اللہ  ﷺ کی شان میں گستاخی اور ہجو کرتا تھا۔ اپنی قوم کے جذبات کو مسلمانوں کے خلاف اُبھارتا تھا۔ بدر کی فتح سے بھی کوئی سبق نہ لیا بلکہ اِس کی گستاخی کچھ اور ہی بڑھ گئی۔ حضور  ﷺ نے فرمایا کون ہے جو میری عزت و حرمت کے لیے اِس کی زبان بند کردے؟ حضرت سالم بن عمیر رضی اللہ عنہ تلوار لے کر اُٹھ کھڑے ہوئے۔ رات آئی تو اپنے کام پر روانہ ہوئے۔ ابوعفک اپنے گھر کے صحن میں غفلت کی نیند سورہا تھا، تلوار اُس کے سینے کے پارکردی اور اُس کا کام تمام کردیا۔

(۶) ابن اخطل کی دو باندیوں کا انجام:

ابن ِخَطَل کی گانے والی دونوں باندیوں کو بھی رسول اللہ  ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر قتل کرنے کا حکم دیا تھا، اِن دونوں کے قتل کرنے کا حکم بھی اِسی لیے دیا گیا کہ یہ دونوں حضور  ﷺ  کی شان میں بدگوئی کے اشعار گایا کرتی تھیں۔ اِن میں سے ایک قتل کی گئی اور دوسری بھاگ گئی جو بعد میں آکر مسلمان ہوگئی۔ (رواہ فی ھامش ابوداو’د  ج٢/٩، کذا فی ھامش البخاری  ج٢/٦١٤)

(۷) حویریث ابن نقید کا قتل:

اِسی طرح رسول اللہﷺ  نے فتح مکہ کے موقع پر حویرث ابن نقید کو قتل کرنے کا حکم اِرشاد فرمایا ۔یہ بھی اُن لوگوں میں شامل تھا جو رسول اللہ  ﷺ کو ایذاء پہنچایاکرتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اُس کو قتل کیا”۔ (کذا فی ھامش البخاری  ج٢/٦١٤)

محمد عطاء الرحمن ساجد،۴/۴/۱۴۴۲ھ۔